"خوف" از قلم امةالله(بنتِ اخلاق)



"خوف"

از قلم امةالله(بنتِ اخلاق)

"سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فکر کیوں کرتی ہو؟ دعا کی ہے نا؟ یقین بھی ہے نا اس پہ؟ جانتی ہوں بہت مشکل ہے۔ کسی عزیز از جان سے بچھڑنے کا خوف ایسا خوف ہے جو ایک سیکنڈ میں ہم پر کپکپی طاری کر دیتا ہے

اس وقت ہمیں آب حیات چاہیے ہوتا ہے۔ کوئی ہم سے ہماری ساری بادشاہت لے لے اور بدلے میں اس ایک شخص  کی زندگی دے دے۔ اور آب حیات کیا ہے جانتی ہو؟ دعا۔۔ہاں دعا آب حیات ہوتی ہے۔ 
اور یہ دعا آب حیات اس وقت بنے گی جب اس کے سننے والے کو حیات دی جائے گی۔ نہیں سمجھی؟ کچھ ایسا جو تمہاری زندگی ہو۔ کسی کی جان مانگ رہی ہو رب سے؟ تو اس کے لیے کچھ تو قربان کرو ۔ اس رب کو دکھاو کہ ہاں واقعی میں دل سے مانگ رہی ہوں۔ اپنی کوئی ایسی چیز قربان کر دو جو تم کبھی چھوڑ نہیں سکتی۔ بے شک صدقہ زندگی بڑھاتا ہے۔ اور بہترین صدقہ بھی تو یہی ہے کہ اپنی قیمتی چیز میں سے خرچ کرو۔ اور ہمارے لیے پتا ہے سب سے قیمتی کیا ہوتا ہے؟ حب جاہ ۔ ہم عزت کے بھوکے ہیں۔ کوئی ہمیں اپنے گھر سے نکال دے۔ بعد میں معافی بھی مانگ کے تو اس شخص کو ہم معاف تو کر سکتے ہیں مگر دوبارہ اس کے گھر نہیں جا سکتے۔ یہ ہوتی ہے حب جاہ ۔ میری مانو تو اسے قربان کر دو۔" عالیہ یہ بات خود سے کہہ رہی تھی۔ اور وہ جانتی تھی کہ یہ باتیں کون اس کے تخیل میں ڈال رہا ہے۔ بے شک وہی رب ہے جو آزمائش بھیجتا ہے تو اس کے نکلنے کا طریقہ بھی بتا دیتا ہے۔ وہ سمجھ چکی تھی اس نے کیا کرنا ہے۔ اس نے خود سے آج ایک عہد کیا تھا۔ 
آپریشن ٹھیٹر کے اوپر جلتی ہوئی وہ چھوٹی سبز بتی بجھی اور اس کے کانوں میں ایک آواز آئی۔ "اب وہ خطرے سے باہر ہے" وہ اپنے رب کی رحمت پر پورے دل سے مسکرائی تھی۔

No comments