Umeed written by Javeria Amanat
"امید"
ازقلم:جویریہ امانت
اک کچی عمر کی لڑکی وہ
نادان سی بھولی بھالی سی
نادانی نادانی میں،دلگی وہ کر بیٹھی
اک انجان مسافر سے ع سے عشق کر بیٹھی
روز صبح اُٹھ کے ہاتھوں میں
اسکے ملن کی ریکھا دیکھتی وہ
انجان تھی دنیا کی سازشوں سے
جو نظر لگا دیں چاہتوں کو
وظیفے، ورد اور منتیں مزار
اسکی چھوٹی سی محبت کی دنیا تھی
پھر لگا گرہن قسمت کو
من ماہی رانجھا چھوڑ گیا
سب قسمت کے حوالے کر کے
اُس دلبر کو شاید جانا پڑا
سالوں گزر گئے اجھڑئے ہوئے
اور چاندی اتر آئی بالوں میں
کر کے آج بھی اُس کے کُن پہ یقین
اُمید رب سے لگائے بیٹھی ہے
جو مالک کُل جہاں کا ہے
اور مالک ہے تقدیروں کا
******************
شکریہ پیاری
ReplyDelete