Adat by Ayesha Bint e Akram
عادت
ازقلم: عائشہ بنت اکرم
ساحل سمندر کی گیلی ریت پہ چلتے ہوئے وہ سوچ رہی ہے کہ لوگ کیوں ہمیں اپنی عادت ڈالتے ہیں اگر انھوں نے ہمارے ساتھ ہی نہیں رہنا ہوتا جب وہ جانتے ہیں کہ وہ کسی اور منزل کے مسافر ہے تو پھر ہمیں کیوں اپنی چاہ میں قید کرتے ہیں وہ خود تو آگے بھر جاتے ہے لیکن جنھیں اپنی عادت ڈال جاتے ہے نہ تو وہ جی پاتے ہے نہ مر پاتے ہیںکیونکہ عادت تو محبت سی بھی جان لیوا ہوتی ہے اور کسی کی عادت ہو جانا وہ مرض ہے جس کا علاج اس دنیا میں نہیں ۔اس کی شفا تو بس اس ایک شخص کے پاس ہی ہوتی ہے جو متاںے جاں ہوتا۔ لیکن جب وہ ہی چھوڑ جاہے تو پھر انسان ایسے مرجھا جاتا ہے جیسے کوئی پھول پانی نہ ملنے پر ۔
آہ شاہ تم خود تو چلے گے لیکن دیکھوں میں تو آج بھی تمہیں ہی جی رہی ہو ۔روز اس ساحل سمندر پر آتی ہو جس پر کبھی تم میرے ساتھ روز قدم سے قدم ملا کے چلا کرتے تھے تمہاری لگائی گی ہر عادت کو زندہ رکھے ہوئے ہو کیونکہ یہی اب میری زندگی کا سرمایہ ہے
No comments