ویلنٹائن ڈے اسلام کی نظر میں ازقلم سحر نصیر

 

ویلنٹائن ڈے اسلام کی نظر میں

ازقلم:سحر نصیر (سیالکوٹ)

ویلنٹائن ڈے سے مراد محبت کا دن ہے۔جو کہ 14 فروری کو  پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اگر میں بات کروں اپنے پیارے  وطن پاکستان کی تو پاکستان میں تو کچھ زیادہ ہی جوش و خروش سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔ویلنٹائن ڈے کا کچھ پس منظر لکھتی چلوں دنیا کی تاریخ میں ویلنٹائن نامی تین انسان گزرے ہیں۔ویلنٹائن دراصل اک انسان کا نام ہے۔ویلنٹائن ڈے کا تاریخی منظرکچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔  پادری ویلنٹائن تیسری صدی کے اول اور آخر میں روحانی بادشاہ شاہ وکلا ڈریس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھا۔ کسی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہ نے پادری کو زندان بھیج دیا۔جیلر کی لڑکی  کی ویلنٹائن سے شناسائی ہو گئی۔ اور وہ اس لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا۔ وہ لڑکی ویلنٹائن سے ملنے  آتی تو ویلنٹائن کے لیے سرخ گلاب کا پھول لاتی تھی۔ یہ اس لڑکی کا ویلنٹائن کی زیارت کرنے کا طریقہ کار تھا۔ جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کیا۔ پادری نے آخری لمحات میں بھی اپنی محبت کے اظہار کے لئے اس لڑکی کے نام ایک تحریر لکھی۔جس میں ویلنٹائن نے لکھا تھا "مخلص ویلنٹائن کی طرف سے"۔ 

ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ایک اور واقعہ ملتا ہے۔ جب رومن اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے لگے  اور یہ مذہب تیزی سے پھیلنے لگا تو اس وقت کے رومن شہنشاہ کلاڈیوس دوئم نے تیسری صدی میں رومن نوجوانوں کی شادی کرنے پر  پابندی عائد کر دی۔  کیونکہ شادی کے بندھن میں بندھنے کی وجہ سے وہ جنگی مہمات میں شریک ہونے  سےگریز  کرنے لگے تھے۔ سینٹ ویلنٹائن نے شاہی فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے دوسرے نوجوانوں کو  شادی کی دعوت دی اور ان کی شادیوں کا اہتمام بھی کیا۔جب شہنشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے ویلنٹائن کو زندان میں ڈال دیا اور اس کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر یہ محبت خفیہ ہی رہی کیونکہ عیسائی مذہب میں پادری ساری عمر شادی یا محبت نہیں کر سکتے۔ کہا جاتا ہے کہ روم کے بانی رومولوس نے ایک بار بھیڑئے کی مادہ کا دودھ پیا تھا جس کے باعث اسے طاقت اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔اہل روم اس واقعے کی یاد میں ہر سال وسط فروری میں جشن منایا کرتے تھے۔ جس میں ایک کتے اور ایک بکری کی قربانی دی جاتی تھی۔ جن کے خون سے دو طاقتور نوجوان غسل کرتے تھے۔ پھر اس خون کو دودھ سے غسل کر کے دھویا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک عظیم الشان پریڈ کا آغاز کیا جاتا تھا۔ 

دودھ اللہ کا نور ہے۔ اور یہ لوگ دودھ کو کس طرح ضائع کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اس ویلنٹائن نامی لعنت کو اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچانا ہے۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری طرح ہماری آنے والی نسلیں بھی اس ویلنٹائن نامی لعنت سے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کرتی رہیں۔اگر  نہیں تو ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔

اسلام ہمیں  انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے۔  لیکن آج کے مسلمان نے  ویلنٹائن کے نام پر پر محبت لفظ کی بے حرمتی کی ہے۔  محبت حرام نہیں اللّٰہ نے بھی اپنی محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی تھی۔ محبت اک پاکیزہ رشتہ ہے ایک لڑکے کا ایک لڑکی کو پسند کرنا غلط نہیں۔اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے تو وہ اس تک نکاح کا پیام پہنچائے  کیونکہ ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو نکاح کا پیام دیا تھا۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!

"دنیا کی محبت ہر ایک خطا کی جڑ ہے".

لیکن آج ہماری نوجوان نسل ویلنٹائن کے نام پر حرام محبت اپنا رہی ہے۔ جس کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔وہ ہے اک نا محرم لڑکے کا اک نامحرم لڑکی سے ملنا۔یہ محبت کے نام پہ سرخ گلاب دینا یہ محبت نہیں بے حیائی ہے  اور بے حیائی کی اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا۔ اگر کسی سے محبت ہے تو اسے نکاح کا پیام دو نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کو عام کرو  جب زمین میں کسی کا نکاح ہوتا ہے اللہ تعالی بھی خوش ہوتے ہے۔ ہمیں نکاح کے رشتے کو عام کرنا ہے اس ویلنٹائن نامی فساد کو اپنے پیارے ملک پاکستان سے کیا اس پوری دنیا سے ختم کرنا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا! "شرم مردوں سے خوب ہے  لیکن عورتوں سے خوب تر ہے".

ویلنٹائن ڈے پر جب ایک لڑکا ایک لڑکی کو خوبصورت کلی دیتا ہے تو وہ لڑکی سمجھتی ہے ہے کہ یہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے میرے عشق میں گرفتار  ہے۔ میرے نزدیک یہ محبت نہیں  پاگل پن ہے۔وہ لڑکا اپنے ساتھ ساتھ آپ کو بھی  جہنم میں لے جانے کی چابی دے رہا ہے۔اس کلی کو جو ایک نامحرم لڑکے نے تجھے دی  تو اس پھول جس نے مرجھا جانا ہےاس کلی کو اپنی خوش قسمتی تصور کرتی ہے۔اس حرام محبت کی خاطر  ایک نامحرم لڑکے کی ناراضگی کی خاطر تو اپنی عزت کو تار تار کرتی ہے سر بازار نیلام کرتی ہے۔ اے بنت حوا!  کبھی تجھے اپنے باپ کا خیال نہیں آیا۔کبھی اپنے باپ  کے چہرے کو نہیں دیکھا  کبھی تو نے اس کی عزت کے بارے میں نہیں سوچا۔اگر تو ایک بار سوچ لیتی تو کبھی بھی تو اپنی عزت کو نیلام نہ کرتی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مسلمانوں! نیکی اور پرہیزگاری کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اس کا عذاب بڑا سخت ہے".

اللّٰہ نے بھی ہمیں گناہ کے خلاف آواز اٹھانے کا حکم دیا ہے۔میں آج کے مسلمان سے سوال کرتی ہوں کہ ہمارا دین ہمیں یہ سیکھاتا ہے۔اے مسلمان کیا تجھے یاد نہیں کہ ہمیں اللّٰہ کے پاس جانا ہے۔موت برحق ہے اس نے آنا ہے مجھے لگتا ہے تو اس دنیا فانی میں کھو کر سب کچھ بھول گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی بیویوں اپنی لڑکیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور ان سے خواہ مخواہ چھیڑ چھاڑ کی جائے".

عورت اک قیمتی چیز ہے جس کو ہر کوئی پردے میں رکھنا چاہتا ہے۔لیکن بس اپنی بیویوں،بیٹیوں اور بہنوں کو دوسروں کی نہیں۔

حضرت عثمان غنی فرماتے ہے "مسلمان کی ذلت اپنے دین سے غفلت میں ہے نہ کہ مفلسی میں"۔ آج ہم اپنے مذہب سے بہت دور ہو گئے ہے۔ہمیں ان فضول رسومات کو ترک کر  کےاپنے دین کی طرف رجوع کرنا ہے۔

حضرت عمر رضہ فرماتے ہے "عزت دنیا مال سے اور عزت آخرت اعمال سے ہے"۔مسلمانوں میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ ان حرام رشتوں سے نکل کر حلال رشتوں کو اہمیت دو۔ عورت کی عزت کروں اور ہر کام کو جائزہ طریقے سے کرنا سیکھوں۔اپنی آخرت کی فکر کروں یہ دنیا کی زندگی فانی ہے۔اس نے اک دن ختم ہو جانا ہے۔میں امید کرتی ہوں ہم سب مل کر اس ویلنٹائن نامی برائی کو اپنے معاشرے سے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ ان شاءاللہ اللّٰہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور حرام تعلقات سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

No comments