ایک لڑکی کو کیسا ہونا چائیے||فریحہ مریم
ایک لڑکی کو کیسا ہونا چائیے؟
فریحہ مریم سیالکوٹ
لڑکی کو بلاشبہ صنف نازک کہا جاتا ہے کیوں کہ وہ ہے ایک ایسی صنف سے وابستہ جو کہ نازک ہے کلی کی پنکھڑی کی طرح اور ملائم ہے گلاب کی خوشبو سے معطر ہوتی باد معطر کی طرح۔
ایک لڑکی کی ذات میں یہ ملائم پن اور نازکی ہوتی ہے مگر اس ملائم پن اور نازکی کو کس کے سامنے ظاہر کرنا ہےاور کس کو اپنا مضبوط روپ دکھانا ہے، اس سے لڑکی کو بخوبی واقف ہونا چائیے۔
ایک لڑکی کو ایسا ہونا چائیے کہ اس کی کردار کے مضبوطی کو کوئی نرمی میں نہ بدل سکے ۔ کوئی اسے توڑ ناسکے۔
اسکاملائم پن اور نازکی اس کے اپنے اور ایسے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونی چاہیے جو اسے جاننے کا حق رکھیں اور وہ گر جائے تو ان کی مضبوطی اور سہارےسے وہ اٹھ کھڑی ہو کیوں کہ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور صنف نازک کو تو پھر اس زمانے کی دشوار اور کھٹن حالات سے دوچار ہونا پڑتاہے۔
لڑکی کو اپنے کردار میں ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ کوئی غیر اس سے بات کرنے سے پہلے سوچ میں ضرور پڑے۔ ایک لڑکی کا بولنا ہی اس کی مضبوطی کا ضامن ہے۔ اس لیے اسکو لہجہ بھی مضبوط کرنا ہے،کردار بھی اور زبان بھی۔
معاشرے کا آگے بڑھنا عورت کی وجہ سے ممکن ہے اس لیے ایک لڑکی کو اس معاشرے میں رہتے ہوئے مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھناہے۔
اپنی خواہشات کو بھی پورا کرنے کی انتھک محنت کرنی ہے جس سے اسے مختلف حالات کا سامنا ہوگا تب ہی اسکا اصل امتحان ہو گا اور وہ مضبوطی کے ساتھ انہیں پار کر سکے گی اور اس طرح خواہشات کی تکمیل بھی ممکن ہے مگر بے جا خواہشات کو پالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہر لڑکی کو اس بات سے بخوبی واقف ہونا چائیے کہ وہ کس معاشرے کا حصہ ہے اور اس معاشرے کی ذہنیت کیسی ہے؟
یہ وہ نقطہ ہے جس پر سوچنا ایک لڑکی کے لیے لازم ہے اور سوچنا چائیے تا کہ آنے والے حالات کی سنگینی کا علم ہو سکے اور ان سے کیسے نپٹنا یے اس کا بھی اندازہ ہو جائے۔
لڑکیوں کو اپنا انداز فکر بدلنا چائیے۔ ان چیزوں کی فکر میں محو ہونا ترک کر دیں جو کہ ناممکنات کی زد میں ہیں۔
اور ایسا انداز فکر اپنائیں جو کہ ان کے حق میں بہتر ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اہل و ایال کے حق میں بھی بہتر ثابت ہو کیوں کہ ایک لڑکی کے کندھے پر خاندان کا ملبہ دھرا ہوتا ہے اس معاشرے نے۔ جتنا بھی ہم اس بات کو جھٹلائیں یا اپنی سوچ کو وسیع کرلیں۔
مگر لڑکی اگرخود کو بدلےنئی سوچ اور نئے انداز فکر کے ساتھ مگر معاشرہ تو نہیں بدل رہا نہ ہی وہ اپنا سوچنے کا انداز بدل رہا ہے۔
ان کی سوچ تو ویسی ہی ہے اس لیے ہمیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے قدم بڑھانا ہوں گے اور اسی کے ساتھ ہم نے آگے بڑھ کر ہر چیز کو اعتدال میں لانا ہے۔
لڑکی کو گھرداری بھی کرنی ہے ایک طرف تو دوسری طرف اسے دنیا میں بھی قدم بڑھانے ہیں جس کے لیے لڑکی کو چائیے کہ وہ اپنے آپ کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو ، کام کو بھی وقت دے جس کے لیے ضروری ہے کہ اسے وقت کا صحیح استعمال آتا ہو اور وقت کو کہاں ، کتنا استعمال کرنا ہے اس کا اچھے سےاندازہ ہو۔
وقت حقیقتاً بہت ہی قیمتی شے ہے۔ ہمیں اس کو کس طرح صرف کرنا ہے اور کس کے ساتھ یہ وقت گزرنا چاہیے؟
ان باتوں کا خاص خیال رکھنا ہر کسی کے لیے اہم ہے۔
مگر ایک لڑکی کے لیے اہم اس لیے ہے کہ وہ گھرداری کے ساتھ ساتھ اگر کوئی نوکری یا کوئی اور کام بھی کرتی ہے یا کرنے کی چاہ رکھتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنا وقت اچھے اور کام آنے والے کاموں میں صرف کرے تا کہ وہ ان خوبصورت خواہشات کو پا سکے جس کے خواب وہ دیکھتی ہے اور انہیں پورے کرنے کی چاہ رکھتی ہے۔
لڑکی کو ایسا ہونا چائیے کہ ظاہری اس کو ہر انسان سے بات کرتے ہوئے حوصلہ دکھانا ہے مگر یہ نہ ہو کے وہ اندر سے حوصلہ مند نہ ہو۔
لڑکی کو خود کو حوصلہ مند اور مضبوط بنانے پر بھی کام کرنا چائیے تا کہ وہ اس معاشرے میں ایک مضبوط کردارکی حامل لڑکی بن کر ابھر سکے اور قدم بڑھا سکے کام یابیوں کی خوبصورت منازل کی طرف اور اپنا خوبصورت کردار کا کچھ حصہ معاشرے کو دے کر معاشرے کے فروغ میں اہم کام کر سکے جو کہ ہر ملک کے لیے بہت ہی اہم اور لازم ہیں۔
ایک لڑکی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاندان کی رسم و روایات سے بخوبی واقف ہو کہ وہ کن نظریات کو اہمیت دیتے ہیں اور کیسے ان رسم و رواج کو لے کر چلتے ہیں۔
اس سے اسے اس بات کا اندازہ ہو گا کہ اسے کن راستوں کو اختیار کرنا ہے؟
اس نے اگر ان روایات و رسومات کا پاس نہ رکھا تو وہ کن حالات سے دوچار ہوگی؟
ان روایات و رسومات کو لے کر چلتے ہوئے وہ کن منازل کو آسانی سے طے کر سکے گی؟
اسے ان روایات و رسومات کو اپنانا کیسے ہے؟
ان روایات و رسومات کو پروان کیسے چڑھانا ہے؟
ان روایات و رسومات کے ساتھ کیسے اعتدال میں لے کر چلنا ہے؟
یہ سب جان لینے کے بعد ایک لڑکی کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ جان سکے اپنے خوابوں کا رخ کس طرف کرنا ہے؟
اور کیسے وہ آگے بڑھے گی؟
تو ایک لڑکی کو مضبوطی اور بختگی کے ساتھ چلنا ہے ساتھ اعتدال بھی قائم رکھنا ہے تا کہ وہ گر نہ سکے نہ کسی کے قدموں میں اور نہ کسی کی نظروں میں۔
No comments