حقوقِ نسواں ازقلم عائشہ عابد (گوجر خان )
عنوان: حقوقِ نسواں
عائشہ عابد (گوجر خان )
قبل از اسلام عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے آج کا مسلمان باخوبی واقف ہے۔ لڑکی کی پیدائش باعثِ شرمندگی گردانی جاتی تھی۔اور ان کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔عورت سماجی و معاشرتی احترام سے مکمل طور پر محروم تھی۔ اس کی ذات قابلِ نفرت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام برائیوں کا سبب بھی عورت ہی مانی جاتی تھی۔عورت کو حقِ ملکیت سے عاری رکھا جاتا تھا۔الغرض کہ عورت کی حیثیت کسی عام مال و متاع سے زیادہ نہ تھی۔
قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے
"اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے طہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دئیے۔"(النساء 1)
قرآن پاک کی یہ آیت واضح طور پر اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔بحیثیت انسان دونوں میں کوئی تفرق نہیں رکھا گیا۔
لیکن اسلام کی آمد سے عورت کو زندگی کے ہر شعبہ میں برابری کا حق دیا گیا۔ جبکہ حسنِ سلوک کی زبادہ حق دار باپ کی نسبت ماں کو قرار دیا گیا۔
قرآن کریم کی چند آیات عورتوں کو دیے گئے تمام حقوق کی واضح مثال ہیں:
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
"مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ مقرر ہے۔" ( النساء 7)
دین اسلام ہی نے وعرت کو پہلی بار وراثت میں حق دیا۔ہر وہ حق جس کا تقاضا آج ہمارے معاشرے کی عورت کرتی دکھائی دے رہی ہے، وہ اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں۔آج کی عورت مجبوری کی بجائے شوقیہ مرد کی برابری کے لیے گھروں سے باہر نکل کر ملازمت اختیار کرتی ہے۔لیکن مرد کی درندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔اسلام عورت کو چاردیواری میں خود کو محفوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔چاردیواری سے مراد ہر گز " قید " نہیں ہے۔عورت کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی مکمل آزادی اور حق حاصل ہے ۔ قانوناً اور شرعاً وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے۔
آج کی عورت محفوظ نہیں ہے ہر دوسرے روز عورت کی عصمت دری کے واقعات رونما ہونا معمول کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھا نا بجا ہے۔ لیکن ایک ایسی " عورت مارچ" جس میں سڑکوں کی زینت بن کر اس بات پر احتجاج کیا جائے کہ " اپنا کھانا خود گرم کرو" ، " مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے"۔۔۔وغیرہ جیسے بے تحاشا نعروں میں کون سے حقوق کی نشاندہی کی جارہی ہے؟
آج کی عورت کو اپنی اہمیت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ عورت ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم ستون ہے۔ آنے والی نسلوں کی آبیاری کی ذمہ داری عورت ہی کے ہاتھ میں ہے۔بچے کی پہلی درسگاہ ہی اس کی ماں ہوتی ہے۔عورت ہی اولاد کی اچھی تربیت کا کْل سامان ہے۔عورت کی حیا اس کی خوبصورتی ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے
" اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے۔۔۔"
یہ حکم نامہ عورت کو قید کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان کے تحفظ کے لیے ہے۔تاکہ وہ پہچانی جائیں اور ایذاء سے بچی رہیں۔جبکہ مرودوں کے لیے بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم ہے ۔جب اسلام مرد کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا تو ہم کون سے حق کی طلب میں ہیں جو عورت کو برہنہ ہوکر سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔
مغرب کی تہذیب کو اپنانے کے شوق میں آج کی عورت خود کو تھکانے کے سوا کچھ نہیں کر پارہی ۔ ایسے حقوق تو مغر ب بھی آپ کو نہیں دیتا۔یہاں ضرورت ہے اپنی سوچ کو بدلنے کی۔ ایک عورت ہونے کے ناطے میں بھی اعورت پر ہونے والی زیادتی کہ خلاف ہوں۔ لیکن اپنے باپ ، بھائی اور شوہر کے لیے کھانا گرم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔
میں عورت اور مرد برابری کے حق میں ہوں لیکن مرد کے بھی " اوپر" حکومت کرنا برابری کے زمرے میں نہیں آتی۔ہمارا معاشرہ انتہائی بگاڑ اور انتشار کا شکار ہے ضرورت صرف ایک " کتاب" ( قرآن حکیم) کو پڑھنے کی ہے۔ بلاشبہ اس میں ہر" حق" کی وضاحت موجود ہے۔
پڑھیے، سوچیئے اور عمل کیجیے!
No comments