اسلام میں خواتین کے حقوق v/s خواتین کا عالمی دن ازقلم ڈاکٹر نایاب ہاشمی



 خواتین کا عالمی دن v/s اسلام میں خواتین کے حقوق


ڈاکٹر نایاب ہاشمی 


"عورت" یہ نام سنتے ہی ہمارے دل کی نظروں کے سامنے نرم و نازک ، صبر و قناعت کا مجسمہ ، حیاء کا پیکر آجاتا ہے ۔ اب وہ عورت fashionable ہو یا اسلامی اقدار کی پابند باحجاب ہو یا بلا حجاب معاشرے کی رونق ہو ۔ لیکن عورت ، لفظ سنتے ہی تصور میں بہت ہی نرم و نازک ہستی کا خیال آتا ہے ۔

اللہ تعالٰی نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا اور جنت میں رکھا۔ وہاں ان کا دل نہیں لگا تو ان کی دلبری کے لئے حواؑ کو پیدا کیا یعنی آدمی کا دل جنت میں بھی نہیں لگا عورت کے بغیر ۔ عورت کو نصف انسانیت کہا جاتا ہے ۔ 


ہم اسلام میں عورت کی حیثیت و اہمیت سے پہلے دیکھیں گے کہ دور قدیم اور جدید میں عورت کی کیا حیثیت اور قدر تھی اور اج بھی ہے ؟


قدیم دور میں عورت ایک کھلونا تھی اور بستر کی زینت تھی ۔ ظالم مرد جانوروں کی طرح مارتے پیٹتے ، غلطی ہونے پر  جسم کے نازک اعضاء تک کاٹ دیا کرتے تھے ، شوہر کی وفات کے بعد ایک کمرے میں  بند کیا کرتے اور نکلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ یہاں تک کہ غسل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ۔

یونانی تہذیب میں عورت کو  مصیبت اور منحوس کہا گیا ۔

عیسائیوں نے کہا شیطانی روپ ہے ۔ مریمؑ کے متعلق شک کیا کہ نعوذباللہ انہوں نے زنا کیا تھا ۔

رومی شادی کے بعد عورتوں کو قتل کر ڈالتے ۔

یہودی گناہ اور منحوس سمجھتے ۔ یہودیوں نے حواؑ کو گناہ کی اصل اور بد روح کہا۔ انہوں نے کہا کہ حواؑ کی وجہ سے آدمؑ کو جنت سے نکالا گیا۔ اس لیے بچے کی پیدائش کی تکلیف اور ماہواری کی سزا ملی ۔ حالانکہ قرآن میں چار بار ذکر کر کے دونوں کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔ اور ایک مرتبہ پھر آدم کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔ یعنی دونوں کی ہی غلطی تھی ۔

اہل عرب کے کچھ قبائل لڑکی پیدا ہوتے ہی قتل کر دیتے یا زندہ دفن کر دیتے ۔ بیوہ عورت کو ایک سال تک تنگ و تاریک کمرے میں رکھا جاتا ۔ لڑکیوں کو زندہ رکھتے تو اس سے کئی کئی مرد شادی کرتے ۔ متعدد بار طلاق دی جاتی ۔ بیوہ ماؤں سے شادی کرلی جاتی ۔ وراثت میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں تھا ۔ 

ہندوؤں میں ستی کی رسم کو تقدس تصور کیا جاتا ۔ یعنی اگر کسی کا شوہر مر جاتا تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی اس کے ساتھ چتا میں جلا دیا جاتا ۔ دیوداسی کا نظام یعنی لڑکیوں کی مورتیوں سے شادی کرا دی جاتی ۔ اور انہیں مندر میں ہی رکھا جاتا ۔ اور مندر کے سادھو پجاری ان لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ۔ یہ دیوداسی نظام آج بھی رائج ہے ۔ اجنتا ایلورا کھجوراہو کی عریانیت ، آرٹ اور شاہکار سمجھے جاتے ہیں ۔ عورتوں کو بیچ دیا جاتا اور مالک کے گھر کے تمام مرد کی ہوس کا شکار ہوتی ۔


عورت آج کے دور جدید میں حسین و جمیل گڑیا ہے ۔ جہیز کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے ۔ عورت محفل کی رونق ہے ۔ کئی صدیوں تک عورت کے حقوق غصب کرنے کے بعد انہوں نے عورتوں کو ابھارا کے اپنا حق مانگو ۔ اس کے لئے پہلے تو گھر سے بے گھر کیا اور کام پر لگادیاکارخانوں میں ۔ 

8 مارچ  1909 میں سب سے پہلے عورتوں نے نیویارک کی سڑکوں پر ریلی نکالی ۔ ان کا احتجاج تھا کہ عورتوں سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور اجرت کم دی جاتی ہے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اجرت بہتر دی جائے ، اوقات کار میں کمی کی جائے اور ووٹ دینے کا حق دیا جائے۔ اس وقت ان پر حکومت کی طرف سے تشدد کیا گیا ۔ لیکن بعد میں ان کے مطالبات میں سے اجرت کا مطالبہ مان لیا گیا ۔

 1953 میں اقوام متحدہ نے ووٹ ڈالنے کا حق تسلیم کیا ۔ 

 1975 میں مغرب کی عورت ، خواتین کا عالمی دن  8 مارچ منوانے میں کامیاب ہوئی ۔ یعنی ایک دن عورت کا اور پورا سال مرد کا ۔ 1980 میں اقوام متحدہ کی پہلی ، 1985 میں دوسری  ، 1990 قاہرہ میں تیسری ،  1995 بیجنگ میں چوتھی اور 2000 میں نیویارک میں  پانچویں خواتین کانفرنس ہوئی ۔ جو بظاہر خواتین کے حق میں تھی لیکن بباطن عورتوں کے حقوق کے خلاف تھی ۔ 


اس کانفرنس میں ہم جنسی کو قانونی طور پر جائز کہا گیا ۔ غیر فطری جوڑوں کو خاندان کا درجہ دیا گیا ۔ عورتوں کو گھریلو اور بچوں کی پیدائش کے کام کا معاوضہ طلب کرنے ، زنا اور ابارشن کو قانونی درجہ دینے سے لے کر عصمت فروش عورتوں کو sex worker کا درجہ دیا گیا ۔

 یہ کچھ باتیں اتنی کڑوی ہیں کہ باقی کی کانفرنس میں کیا کچھ طے کیا گیا ہوگا ہم سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس کا پورا ایجنڈا خاندانی نظام کو ختم کر دینا ہے ۔ 


اسلام میں عورتوں کے حقوق :- 

اسلام نے عورتوں اور مردوں کی حیثیت مساوی رکھا ہے ۔ حقوق 1500 سال پرانے ہیں لیکن آج کے دور کے مطابق ہے ۔ کسی جگہ عورتوں کے حقوق کو بڑھا دیا اور کسی جگہ مردوں کے حقوق کو لیکن آخر میں دونوں کی حیثیت مساوی ہی ہے ۔ 


روحانی حقوق / مذہبی حقوق Spiritual Right

 معاشی حقوق  Economic rights

معاشرتی حقوق Social rights 

تعلیمی حقوق  Educational Rights 

قانونی حقوق  Legal rights 

سیاسی حقوق  Political rights 


1) روحانی و مذہبی حقوق :- عورتوں کو نماز روزہ زکوۃ حج سب ادا کرنے کا حق ہے ۔اور اس کا فائدہ ان کو خود کو ملتا ہے۔ شوہر یا والد بھائی کو نہیں ۔ دوسرے مذاہب میں ایسا نہیں ہے ۔ کئی کام عورتیں کرتی ہیں اور فائدہ مرد کو ملتا ہے یعنی شوہر کو ۔ 


2) معاشی حقوق :- اسلام میں ایک بالغ لڑکی ( 10-12 سال کی ) شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ، بغیر کسی کی اجازت کے اپنی پراپرٹی دے سکتی ہے ، استعمال کر سکتی ہے ، بیچ سکتی ہے  ۔ اگر وہ مالک ہے تو باپ بھائی شوہر بیٹے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔ 1870  میں یورپ میں یہ قانون دیا گیا اور انڈیا میں پچھلی صدی میں دیا گیا ۔

اسلام میں عورتوں کو کام کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود بھی خرچہ کی ذمہ داری اس کی نہیں ۔ اس کا خرچ اس کا سرپرست اٹھائے گا ۔ اس کی کمائی پر باپ بھائی شوہر کا حق نہیں ۔اس کی مرضی ہے  خرچ كرنے میں مکمل طور سے آزاد ہے ۔ 

حضرت خدیجہؓ کامیاب بزنس وومن تھی ۔ ان کا انٹرنیشنل بزنس تھا ۔ جو لبنان شام جارڈن فلسطین سیریا تک پھیلا ہوا تھا ۔ بنت عکرمہؓ عطر فروش تھی ۔ سوداؓ چمڑے کا بزنس کرتی تھیں ۔ 

شادی کے موقع پر مہر پر عورت کا حق اور شوہر کی موت ہو جائے تو وراثت میں حصہ دیا گیا ۔

حضرت رفیفہؓ سرجن تھی ۔ جنگوں میں عموماً ناک کٹ جاتی تو یہ سونے چاندی کی ناک بناتی اور مرد ہڈی پہ فٹ کر لیتے ۔ ام سلیمؓ اور حفصہؓ ڈاکٹر تھیں ۔


3) معاشرتی حقوق :-

 بیٹی بیوی ماں بہن ہر رشتے کے حساب سے حقوق دیئے گئے ۔ بچیوں کے پیدائش سے پہلے یا پیدائش کے بعد قتل پر پندرہ سو سال پہلے اسلام نے پابندی لگا دی ۔ بیوی کو محسنہ کہا گیا ، بہن کی مدد کرنا حق قرار دیا گیا ۔


4) تعلیمی حقوق :- 

قرآن کا پہلا کلمہ اقراء مرد عورت دونوں کے لیے اتارا گیا ہے ۔ یعنی علم کا حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے ۔

حضرت عائشہؓ ، ام سلمہؓ ، فاطمہ بنت قیسؓ اپنے دور کی اسکالرز تھی اور کئی مرد اسکالرز نے ان کے پاس پڑھا  ہے۔ کئی صحابیات شاعری کرتی تھیں ۔ خنساءؓ بنت عمرو سے بڑا شاعر یا شاعرہ عرب میں کوئی نہ تھا ۔  کئی مذاہب میں عورتوں کو ان کی مذہبی کتاب کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں اور اسلام میں عورت قرآن بھی پڑھ سکتی ہی ہے اور اس کی  ٹیلی گرافی یعنی خطاطی  بھی کرتی ہے ۔ ایک عورت فاطمہ الفریحی نے 859 سن عیسوی میں یعنی ایک ہزار سال پہلے یونیورسٹی آف خوارین، مراکش میں قائم کیا تھا ۔یہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بھی پرانی ہے ۔یونیسیف نے کہا ہے کہ یہ سب سے پرانی اور ابھی تک چلنے والی یونیورسٹی ہے ۔


5) قانونی حقوق :- 

جان و مال میں برابر حق ۔ وراثت میں برابر حق ۔ وراثت میں عورت کا ایک حصہ تو مرد کے دو حصے رکھے گئے اس لئے کہ عورت کو باپ کی جائداد میں بھی حصہ اور شوہر کی جائداد میں بھی اس طرح وہ دونوں جگہ سے حصہ دار ہونے کی صورت میں مرد کے برابر ہوجاتی ہے ۔ گناہ کی سزا بھی برابر رکھی گئی ۔ مرد کو طلاق کا حق دیا گیا تو عورت کو بھی خلع کا حق دیا گیا ۔ نکاح کے لیے لڑکیوں کی رضامندی ضروری قرار دی گئی ۔ بیوہ اور طلاق شدہ کو دوسری شادی کا حق دیا گیا ۔ دوسرے مذہبوں میں ابھی ابھی یہ حق ملا ہے یا مل رہا ہے ۔ بلکہ بہت سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ 


6) سیاسی حقوق :- 

عورت کو سیاسی حیثیت حاصل ہے ۔ مشورہ دے سکتی ہیں ۔ صلح حدیبیہ میں ام سلمہؓ نے مشورہ دیا ۔ ووٹ دینے کا حق ہے ۔ قانون سازی میں خواتین کا حصہ ہو سکتا ہے ۔  شفاءؓ بنت عبداللہ کو عمرؓ نے ایڈمنسٹریٹر آف اکاؤنٹ کنٹرول بنایا تھا ۔ مارکیٹ میں کس چیز کا کیا ریٹ ہوگا مارکیٹ پوزیشن کیا ہے یہ سب انہیں دیکھنا تھا ۔عورتیں جنگ میں حصہ لے سکتی ہے ۔ جنگ احد میں صفیہؓ ، ام عمارہؓ نے حصہ لیا ۔ یورپ نے 1976  میں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دی ۔ حفصہؓ، جویریہؓ، فاطمہؓ ، عائشہؓ مفتیہ تھیں ۔ حسن بصری کی والدہ بھی فتوے دیا کرتی تھیں ۔


ہمیں اب یقین آجانا چاہیے کہ اسلام نے تمام دنیا سے زیادہ عورتوں کو حقوق دیئے ہیں ۔ اس لیے اب 8 مارچ کو کسی طرح کی ریلی نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دن ان کے لیے ہے جو کہ اسلام کے پروردہ نہیں ہیں ۔ ہمارے لیے سال کا صرف ایک دن نہیں بلکہ پورا سال اللہ نے دیا ہے ۔ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ دین کامل ہے ۔ جس نے زندگی کے ہر پہلو پر ہمیں مکمل آگاہی دیدی ہے ۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے جامع تعلیم دی گئی ہے ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے ہم ان علوم سے کتنا استفادہ کر سکتے ہیں اور یہی ہمارے لئے مشعل راہ ہوگا. اللہ تعالی ہمیں دین پر مکمل قائم کردے ۔ آمین

No comments