جہیز ایک معاشرتی برائی ہے از قلم طیبہ الیاس
عنوان: جہیز ایک معاشرتی برائی ہے
از قلم طیبہ الیاس
کوئی بھی برائی کبھی خود سے جنم نہیں لیتی۔ اس برائی کی جڑیں پھیلانے کے لیے کوئی نہ کوئی عنصر ضرور شامل ہوتا ہے پھر چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہوں۔
جب معاشرے میں عدل و انصاف کی کمی اور معاشرے کو تباہ کر دینے والے ناسور جنم لیں گے تو برائیاں معاشرے کا اہم جزو بن کر رہ جاتی ہیں۔ جو وقتا فوقتا معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
بلکل اسی طرح ایک ایسی برائی جو اب معاشرتی ناسور بنتی جا رہی ہے، وہ جہیز ہے۔ جہیز وہ برائی ہے جس سے معاشرے کا ہر امیر اور غریب بخوبی واقف ہے۔ مگر یہ برائی غریب کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔
کہاں سے آئی ہے لوگو۔۔۔۔۔۔ بتاؤ رسم جہیز
خدا کے دین میں اس کا کوئی سراغ نہیں
"جہیز" عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "سامان"۔جہیز چار حروف کا مجموعہ ہے۔ پڑھنے اور بولنے میں ایک عام سا لفظ ہے مگر جب اس کی ڈیمانڈ شادی کے مواقع پر ہو تو یہ لفظ بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔
"جہیز وہ سازوسامان ہے جو شادی کے وقت لڑکی کے والدین کبھی بلا مطالبہ تو کبھی جبراً دیتے ہیں۔ جہیز میں مختلف اشیاء کھانے پینے کے برتن، اوڑھنا بچھونا اور باقی اشیاء شامل ہوتی ہیں۔
جہیز دینے کی رسم زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ یہ وہ سازوسامان ہوتا ہے جو گھریلو اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے۔جو لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کی آسائش و آرام کے لیے دیتے ہیں۔ جہیز کی رسم صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور باقی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔قدیم ادوار میں جہیز کی رسم یونانیوں سے ملتی ہے۔ مگر اب یہ ایک معاشرتی ناسور بن کر رہ گیا ہے۔
جہیز کا لفظ قرآن و حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے عورت کو سجانا، سنوارنا اور عروسی لباس۔
ولما جھزھم بجھازھم (سورہ یوسف: 59)
جب (یوسف علیہ السلام کے کارندوں نے) بردارانِ یوسف علیہ السلام کا (واپسی کا) سامان تیار کیا۔
جہیز ایک لعنت ہے۔ مگر کیسے؟
جہیز معاشرتی ناسور ہونے کے ساتھ ایک لعنت بھی ہے۔ معاشرے کے غریب انسان کی بیٹیاں باپ کے گھر کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں کیونکہ غریب والدین جہیز دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں
دیکھو! اداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں
جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے، کبھی بے شمار سازوسامان، گاڑی، گھر تو کبھی پیسوں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین اپنی بیٹی کی آسائش اور راحت کے لیے اسے دل کھول کر ڈھیروں سازوسامان دیتے ہیں تاکہ ان کی بیٹی سسرال میں خوش و خرم زندگی گزار سکے۔ مگر اس سب کے باوجود معاشرے کا ہر غریب فرد اس جہیز نامی چکی میں پِس رہا ہے۔ معاشرے کا وہ غریب فرد جو مشکل سے اپنی روزی روٹی کماتا ہے۔ مگر اپنی بیٹی کا رشتہ طے وقت اس پہ بے شمار جہیز دینے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
'' اس میں کوئی شک نہیں کہ جہیز دینے والا بھی مرد ہے اور لینے والا بھی مرد ہے مگر ایک طرف معاشرے کا غریب فرد جہیز دے کر قرض کی چکی میں پستا ہے تو دوسری طرف جہیز لینے والا مرد خوش حال زندگی گزارتا ہے۔ جہیز ایک آسائش کی مانند ہے مگر اب یہ زحمت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔"
بعض اوقات جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ ہونے پر والدین کی دہلیز سے ہی بارات واپس چلی جاتی ہے۔ معاشرے میں بسنے والے افراد کی اس قدر سفاکی اور تلخی دیکھ کر والدین کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ جہیز کو بھیک اور رشوت کے مترادف لیا جاتا ہے۔ جب زور زبردستی کسی سے کوئی چیز وصول کی جائے تو وہ شدت اختیار کر جاتی ہے جسے رشوت کہا جاتا ہے۔ بلکل اسی طرح جہیز کو بھی رشوت تصور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ روز انڈیا میں قیام پذیر مسلم لڑکی عائشہ نے سماجی دباؤ کے تحت خودکشی کر لی۔ شوہر کی طرف سے مسلسل جہیز کا دباؤ اسے اس قدر پریشان کر گیا کہ اس نے موت کو گلے لگا لیا۔ اگر جہیز کی اس طرح زبردستی ڈیمانڈ کی جاتی رہی تو بیٹیاں خودکشی کرتی رہیں گی یا پھر عمر بھر والدین کی دہلیز پر بیٹھی رہیں گی۔ جہیز جیسے ناسور معاشرے میں پھیل کر معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں گے۔ غریب کی بیٹیاں اس لیے باپ کی دہلیز پہ بیٹھ جاتی ہیں کہ ان کے والدین کے پاس بیٹیوں کو دینے کے لیے جہیز نہیں ہوتا جو ایک امیر باپ اپنی بیٹی کو دیتا ہے۔ بالوں میں چاندنی اور چہرے پہ جھریاں نمایاں ہو جاتی ہیں۔
اگر اس طرح سلسلہ چلتا رہا تو برائیاں ختم ہونے کی بجائے بڑھتی رہیں گی۔ آئے روز سماجی دباؤ کا شکار خواتین اس دوہرائے پہ آ جائیں گی کہ وہ موت کو گلے لگانا مناسب سمجھیں گی۔ آخر کب تک؟
غریب باپ کی بے بس بیٹیاں کب تک معاشرے کے اس ناسور میں پستی رہیں گی؟
اگر اس ناسور پر پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ناسور غریب لوگوں کا جینا اجیرن کر دے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ جہیز جیسی برائی کے لیے سخت سے سخت اقدامات کرے اور سزا مقرر کرنی چاہیے تاکہ کوئی اور عائشہ سماجی دباؤ کے تحت اپنی جان نہ دے دے۔ جہیز دینے اور لینے والوں کو کڑی سزائیں دی جائیں اور جرمانے لگائے جائیں تاکہ معاشرے کا کوئی بھی فرد اس برائی کو پھیلانے لگے تو اسے حکومتی اقدامات یاد رہیں۔
No comments