Main hun apni pehchan Ap written by Iram Naaz
*میں ہوں اپنی پہچان آپ*
ازقلم:- ارم ناز(کھنڈہ، صوابی)
کہا جاتا ہے کہ مرد کے بغیر عورت کی اس معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی بغیر مرد کے عورت اس معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتی ہے۔ کبهی سوچا ہے کہ کیوں؟ آخر کیوں ایک عورت بغیر مرد کے اپنی زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتی؟ نہیں کبهی کسی نے سوچا نہ ہوگا، نہ ہی مرد حضرات نے اور نہ ہی خواتین نے۔ خیر خواتین تو چاہ کر بھی سوچ نہیں سکتی کیونکہ انہیں تو بچپن ہی سے یہی بتایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ اس کی پہچان ایک مرد ہی سے وابستہ ہے کہ بغیر مرد کے تو وہ کوئی پہچان رکھتی ہی نہیں ہے تو پھر خواتین سے تو یہ شکایت کرنا بنتا ہی نہیں کہ انہوں نے کیوں نہیں سوچا اپنی پہچان کے بارے میں۔
خیر جو پہلے کبهی نہیں سوچا گیا میں چاہتی ہوں کہ میری اس تحریر کے بعد مرد حضرات اور خاص طور پر خواتین اپنی پہچان اور اپنی حیثیت کے متعلق سوچنے پے مجبور ہو جائے کیونکہ جب تک ہم خواتین کو خود اپنی پہچان نہیں ہو گی تب تک نہ تو یہ معاشرہ ہمیں ہماری پہچان دے گا اور نہ ہی ہماری حیثیت کو تسلیم کرے گا۔
یہاں اپنی پہچان سے میری مراد مرد حضرات کی طرح کی زندگی یا ان کے شانہ بشانہ کام کرنے یا ان ہی کے جیسے حقوق حاصل کرنا ہرگز نہیں ہے کیونکہ میں تو خود اس نظریے کی بہت بڑی مخالف ہوں کہ جس میں عورت، عورت مارچ کے نام پے مرد کی طرح کی زندگی اپنانے کے لئے مطالبات کر کے خود کو ارزاں کئے ہوئے ہوتی ہیں کیونکہ اَلْحَمْدُلِلّه اَلْحَمْدُلِلّه ایک عورت کو اسلام نے جو حقوق دیے ہیں وہ تو مرد حضرات کو بھی نہیں ملے اور میں شکر ادا کرتی ہوں کہ میں اسلام کی شہزادی ہوں مجھے جو حقوق ملے ہیں میں اس پے اللّه کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہی ہو گا۔
یہاں پہچان اور حیثیت سے مراد یہی ہے کہ ایک عورت کو اس کی اپنی ذات سے پہچانا جائے۔ اس کی پہچان کو کسی مرد کی ذات سے جوڑا نہ جائے۔ اسے بچپن ہی سے مرد کی ذات کے ساتھ منسوب کر کے ذہنی طور پر اپاہج نہ کریں کہ وہ خود کی پہچان حاصل کرنے کا سفر مکمل کئے بنا ہی کہی راستے میں ہی رک جائے یہ سوچ کر کہ جب مجھے مرد ہی کی ذات اور اس ہی کی پہچان سے پہچانا جانا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے خود کی پہچان حاصل کرنے کی۔
خدارا انہیں ذہنی آزادی دے کر اس دنیا کو سمجھنے کا موقعہ دیں، انہیں تعلیم حاصل کرنے کی آزادی دے تاکہ وہ اپنی خود کی پہچان حاصل کرے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ مرد کا ہونا زندگی میں ضروری نہیں ہے یا مرد کے بغیر عورت اپنی زندگی بھرپور طریقے سے بسر کر سکتی ہے، نہیں ہرگز نہیں کیونکہ مرد چاہے باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو یا پھر بیٹا وہ ہر حیثیت سے ایک عورت کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کا ہونا زندگی میں بہت ضروری ہے کیونکہ جو چیز اور جو رشتے اللّه نے مقرر کئے ہوئے ہیں وہ غلط تو ہو ہی نہیں سکتے لیکن ان رشتوں کو اور ان مردوں کو عورتوں کے لئے ڈھال کے جسا ہونا چاہیے کہ جن کا ساتھ پاکر عورت مزید مضبوط ہو کر ابھرے اور مزید کامیابیاں سمیٹتی ہوئی دکھائی دے، ناکہ یہ ایسے ہو کہ جو عورت کو دبائے اور ان سے ان کی پہچان ضبط کر کے انہیں اپنی نوکرانياں بنائے کیونکہ ایسے مرد کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن مرد نہیں ہو سکتے کہ جو اپنی مردانگی کو کسی عورت کو دبا کر یا اسے ڈرا کر ثابت کرتے ہو۔
یقین کریں ایک عورت کے لئے اس کے سپورٹ کرنے والے رشتے آبِ حیات کی سی حیثیت رکھتے ہیں کہ جنہیں پاکر اور جن کے دم پر ایک عورت اصل معنوں میں عورت بنتی ہے مضبوط اور پراعتماد۔ جو اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی پہچان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ثابت ہوتی ہے۔ لیکن بات تو وہی ہے نا کہ اگر اگر انہیں سپورٹ کرنے والے رشتے ملے تو۔
عورت کی اپنی پہچان جہاں عورت کے لئے اہم ہے وہاں معاشرے کے لئے بھی یہ کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بلا وہ کیسے؟ تو آپ کو بتاتی چلوں کہ ایک عورت کو جب ہر طرح کی سپورٹ دے کر اسے اپنی پہچان حاصل کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے تو وہ صحیح برے کی تمیز کرنے کے قابل بنتی ہے، وہ ایک کامیاب فرد کی حیثیت سے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر معاشرے میں سدھار لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایک عورت کی کامیابیاں اسے خود اعتماد بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ زندگی کے ہر معاملے میں بااعتماد ہو کر اور بغیر کسی ذہنی دباؤ میں آئے ایک بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس کی یہی پہچان اسے ایک قابل اور پراعتماد ہمسفر بننے میں مدد فراہم کرتی ہے کہ جس کے دم پر وہ کسی کی شریک حیات بن کر اس کی اور اس سے جڑے رشتوں کی زندگیوں کو خوبصورت موڑ دینے میں اور ایک کامیاب زندگی گزارنے میں مددگار بن سکتی ہے، وہ روایتی اور جاہل عورتوں کی طرح مرد کو اور گھر کے نظام کو اپنی مٹھی میں کرنے کی خواہش بالکل نہیں کرتی بلکہ وہ اپنے شریک حیات کے احساسات کا خیال کرکے اس کے ساتھ مل کر گھر کے معاملات احسن طریقے سے سنمبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ پتہ ہے یہ فرق کیوں ہے؟ کیونکہ پڑھی لکھی اور اپنی پہچان رکھنے والی خواتین کے پاس اپنی پہچان ہوتی ہے جس نے ان کو اتنا اعتماد اور بھروسہ دیا ہوا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں باقی سطحی عورتوں کی طرح پرائی حیثیت اور پہچان حاصل کرنے کی بھوک اور دوسروں پر حکمرانی کرنے کی کوئی چاہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ جانتی ہوتی ہے کہ اس کی ذات کی اپنی پہچان کے لئے اسے ان اوچھے ہتھکنڈوں کی ضرورت نہیں ہے، یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایک پڑھی لکھی اور اپنی پہچان اور حیثیت کی مالک عورت کی نسل اور ایک دبی ہوئی محدود ذہنیت کی عورت کی نسل میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں نا کہ جیسی ماں ہوتی ہے بالکل ویسی ہی اس کی اولاد ہوتی ہیں۔ کیونکہ اولاد ماں کو دیکھ دیکھ کر پروان چڑھتی ہے اور خاص طور پر بیٹیاں تو ماں کا عکس ہوتی ہیں، تو یہاں بھی ایک پڑھی لکھی عورت کا پلڑا بھاری رہتا ہے وہ یوں کہ اس کی اولاد بھی بڑی ہو کر اپنی ماں ہی کی طرح کی سوچ رکھتی ہیں اور اس کی طرح اپنی پہچان بنانے کی کوشش میں لگ کر یہ اِدھر اُدھر کی فضول باتوں اور فضول کاموں سے دور رہتی ہیں اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دور کے کامیاب ترین افراد بن کر ابھرتے ہیں بالکل اپنی ماں کی طرح کیونکہ ان کی تربیت ہی ایک ایسی ماں نے کی ہوتی ہے کہ جس کی اپنی ایک الگ پہچان ہوتی ہے اور جب ماں ہی پڑھی لکھی بااعتماد ہو تو پھر اولاد بھی ویسی ہی بنتی ہے خوداعتماد اور ہر میدان میں کامیاب ترین۔ جبکہ جاہل اور دوسروں کی پہچان اور حیثیت کو اپنی پہچان اور حیثیت سمجھنے والی عورتوں کی نسل بھی ان ہی کی جیسی محکوم و مقہور بن کر خوار ہوتی ہیں۔
تو بس اس فرق کو پہچان کر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو خود کی پہچان بنانے کا موقعہ دیں تاکہ کل کو وہ آپ کے لئے فخر کا باعث بنے، ناکہ ایک پست ذہن عورت کی طرح آپ کے لئے شرمندگی کا باعث بنے۔
میرے عزیز قائرین حضرات یقین کریں کہ اگر آج آپ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی پہچان حاصل کرنے میں سپورٹ فراہم کریں گے تو کل کو آپ ہی کی نسل پھلے پھولے گی کیونکہ ان کی یہ پہچان آپ کو دگنی مقدار میں واپس ملے گی آپ کی بہنوں بیٹیوں کی کامیابی کے ساتھ ساتھ آپ کی آنے والی نسلوں کی عمدہ پہچان اور اعلیٰ کامیابیوں کی صورت میں۔
تو بس ہمّت بنے ایسی لڑکیوں کی جو آگے بڑھ کر اپنے لئے اور اپنے خاندان کی سربلندی کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ ختم کر دیں اس پست سوچ اور ان دل کو چیرتے ہوئے الفاظ کو کہ جس کی وجہ سے ایک باصلاحیت پنچھی ڈر کے مارے خود ہی خود کو حبس زدہ پنجروں میں قید کر لیتی ہیں کہ جس قید میں رہ رہ کر وہ ذہنی طور پر ایک غلام کی سی سوچ کی حامل بن کر جب اپنی ہی جیسی ڈری سہمی یا باغی اور شدّت پسند نسلوں کو جنم دے کر پروان چڑھاتی ہے تو وہ آگے جا کر یا تو معاشرے پے بوجھ بنتے ہیں یا پھر معاشرے میں بگاڑ کا باعث ٹھہرتے ہیں جس پر آپ کو ہی پچھتانا پڑنا ہے، لحاظہ کل کو پچھتانے سے بہتر ہے کہ آج ہی کوئی اچھا فیصلہ کرے، ایک عورت یا ایک لڑکی کے لئے نہ سہی اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں اور ان کے روشن مستقبل کے لئے ہی سہی۔
والسلام!!
No comments