خواتین کا عالمی دن ازقلم حامدرضا، ریاض ، سعودی عربیہ


 ...... خواتین کا عالمی دن...... 


حامدرضا، ریاض ، سعودی عربیہ 


 آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین یعنی ورکنک ویمن اس دن کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ اس دن کو خواتین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر منایا جاتا ہے۔  خواتین کا عالمی دن منانے کا سلسلہ پچھلی صدی کے اوائل میں شروع ہوا تھا اور  باقی دنیا کی طرح ہم پاکستان میں بھی اس دن کو منائیں گے۔ لیکن ایک تقسیم شدہ معاشرے اور قوم کی طرح؟؟ کیونکہ ہمارے تر  زیادہ لوگوں کے خیال میں خواتین کا عالمی دن منانا وقت کا ضیاع اور مغربی تہوار ہے ۔ جس سے ہماری ثقافت یا مذہب کا کچھ لینا دینا نہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ خواتین کا عالمی دن سیمینار یا ٹی وی ٹاک شوز میں بحث مباحث کر کے ٹھیک طرح سے منایا جاتا ہے ۔ جو چیز ہمارے ہاں ہمیشہ ہی نظر انداز ہو جاتی ہے وہ عورت کا تشخص، اس کے وجود کی اہمیت اور اس کی زندگی ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں عورت کی اہمیت ابھی تک مبہم ھے۔ جب کہ ہمارے مذہب نے تو عورت کو اعلیٰ ترین مقام دیا ہے. 


خواتین کے حوالے سے عالمی سطح پر دن منانے کا مقصد عورت کی دنیا میں خدمات کا اعتراف کرنا اور اس کے وجود کی کسی بھی دوسرے ذی روح جتنی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ ھم گندگی صاف کرنے کےبجائے کارپٹ کے نیچے گند جمع کر کے گندگی چھپانے کے شوقین ہیں اس لیے ایسے عالمی دن ہماری سوچ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے۔ اور ہم اپنے آپ کو یہ دھوکہ دے کر تسلی کر لیتے ہیں کہ یہ عالمی دن خواتین کو بے حیا و بےشرم بنانے کیلئے منایا جاتا ہے۔ جبکہ جتنی آزادی ہمارے مذہب نے عورت کو دی ہے وہ مثالی ہے اور دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ہے ۔ حالانکہ صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ بچی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے جنازے تک ہمارا معاشرہ قدم قدم پر “پردہ”، “غیرت”، “مذہب” اور “روایات” کے نام پر اس کے احساسات اور خیالات کی نفی کرتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں عورت کے “وجود ” کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پیدا ہوتے ہی اس کے دماغ میں یہ بات گھسا دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کا واحد مقصد نسلِ انسانی کی افزائش کے مقصد کے حصول میں مرد کی غلام بن کر جینا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ آفرین ہے ان تمام مذہبی اور ثقافتی ٹھیکیداروں پر جو بڑے رعب اور دبدبے کے ساتھ عورت کے حقوق اور مقام کا مذہب اور سماج کے سانچوں میں تعین کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔


جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی پیدائش سے لیکر ہوش سنبھالنے تک عورت کے قدم قدم پر محتاج مرد حضرات جب اس کی زندگی کے مالک بن بیٹھیں اور اپنے لیئے معیار الگ اور عورت کیلئے الگ رکھیں تو تعجب اور حیرت ہوتی ہے۔ ہم آنکھ ایک عورت کی گود میں کھولتے ہیں اور اس کی آغوش میں دنیا کی سختیوں اور نرمیوں کو پرکھنے کی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جونہی ھم بلوغت کی عمر پر پہنچتے ہیں تو ہمیں غیرت اور بے حیائی کا سبق یاد آ جاتا ہے۔


دلچسپ بات ہے کہ قحبہ خانوں میں جانے والے جنسی تسکین کے حصول کی خاطر نشے میں دھت حضرات ہوں ، دن بھر کے تھکے ماندے ملازمت پیشہ یا تاجر افراد ہوں یا پردے کے نام پر عورت کو گھر میں قید کر کے رکھنے والے افراد، سب کو دنیا کی تلخ حقیقتوں اور زندگی کی کڑواہٹ سے وقتی طور پر نجات ایک عورت کی آغوش میں ہی آ کر نصیب ہوتی ہے۔ 


دنیا بھر میں اس سال خواتین کے عالمی دن کا تھیم “ففٹی ففٹی 2030” ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سن 2030 تک دنیا کی آبادی پچاس فیصد مرد اور پچاس فیصد خواتین پر مشتمل ہو گی۔ جہاں وسائل تخلیقات کاروبار غرض زندگی کے ہر شعبے میں مرد اور عورتوں کا حصہ آدھا آدھا ہو گا۔ اور ایک طرف ہماری دنیا ہے جہاں آج بھی اس بات پر غور و خوص ہو رہا ہے کہ کیسے سماج میں بسنے والی خواتین کو باندی بنا کر رکھا جائے۔ کس طرح سے مرد کی حاکمیت کے فرسودہ خیالات و تصورات کو زندہ رکھا جائے۔   


خود ہم سب بھی ابھی تک زمانہ جاہلیت میں بستے ہیں ۔ لڑکے کی پیدائش پر ہماری چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے اور لڑکی کی پیدائش پر ہمارے کاندھے ڈھلک جاتے ہیں۔ ھم بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر مہنگے سے مہنگے اسکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرواتے ہیں۔ لیکن بیٹیوں کو عام سے اسکولوں کالجوں میں پڑھوا کر مطمئن ہو جاتے ہیں. آج بھی ھمارے ہاں زیادہ تر افراد کی سوچ یہ ہے کہ بچیوں نے پڑھ لکھ کر آخر کو کرنا ہی کیا ہے؟ گھر بار ہی تو سنبھالنا ہے اس لیے بس مختصر تعلیم دلواؤ تاکہ اچھا رشتہ آ سکے۔ اسی طرح لڑکا اگر شادی کرنا چاہے تو بلے بلے مگریہی خواہش اگر کوئی لڑکی کردے تو بس غیرت کو ٹھیس ، مذہب اور ثقافت کو خطرہ ، برادری میں ناک نیچی الامان الحفیظ!!!  جہیز کی فرمائش سے لیکر دھوم دھڑکے سے لڑکے کی شادی اور لڑکی کی سادگی کفایت شعاری اور جہیز سے پاک جیسے نعرے اور بہانے۔ لڑکا پوری پوری رات گھر سے باہر چاہے نشہ کرتا پھرے یا پھر جنسی تسکین و لذت کا سامان سمیٹے اس کو سب معاف لیکن بیٹی کو ذرا سی دیر ہو جائے تو اس کی دھلائی اور بے عزتی۔ ہمارے ہاں سندھ میں کاروکاری اور لڑکی کی جبراً قرآن سے شادی کی جاہلانہ رسمیں ہمارے معاشرے پر بدنما داغ ھیں. 


غرض ہر رنگ اور ہر روپ میں منافقانہ اور غاصبانہ طریقوں سے دھونس دھاندلی کر کے خواتین کو ہم جانور سمجھ کر دباتے ہی جاتے ہیں۔ جو فہم سے بالاتر ہے کہ عورت کیا انسان نہیں ہے؟ کیا وہ سانس نہیں لیتی؟ کیا وہ ارمان ، جذبات اور خواہشات نہیں رکھتی؟ کیا اس کو صرف مرد کی خواہشات اور آسودگی کی تکمیل کیلئے ہی اللہ تعالی نے دنیا میں بھیجا ہے تو پھر تو خالق کائنات اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی نہیں دیتا مگر عورتوں نےتو قسم کھا رکھی ہے کہ ہم سوچنے کا یا عقل استعمال کرنے کا گناہ کبھی بھی نہیں کریں گے اس لئے اب کوئی اور ان کے لئے کیا سوچے۔


 اصل مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ” مرد نے عورت کے ساتھ ابھی صرف سونا ہی سیکھا ہے ، جاگنا نہیں”۔ جس دن ہم عورت سے جذبات کے علاوہ اس امر کا بھی ادراک کریں گے کہ یہ عورت سانس لیتی پے خواب دیکھتی ہے اور سوچ و تخیلات میں ہم سے کسی بھی طرح کم نہیں ، اس دن شاید ہم خواتین کو نہیں بلکہ اپنے تباہ حال معاشرے کو مضبوط کر لینگے۔ مگر اس کے لئے عورت کو قدم بہ قدم اٹھنا ھوگا۔ جب ہی ہمارے معاشرے میں بہتری آئیگی ۔


خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے معاشرے میں بسنے والی تمام “ خواتین ” سے مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ خدارا سوال کیجئے۔ ہر منافقانہ طرز عمل اور ہر اس سوچ پر جو آپ کو معاشرے میں پیچھے رکھنا چاہتی ہے۔ چیلنج کیجئے ان تمام نظریات کو جو آپ کو باندی بنا کر بچے پیدا کرنے والی مشینیں سمجھتے ہیں۔ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو بتائیے کہ غیرت بچیوں کو تعلیم نہ دلوانے ، ان کی جبری شادیاں کروانے ان کو ملازمت نہ کرنے دینے سے متاثر ہوتی ہے نا کہ ان کو پڑھنے لکھنے اور باہر پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی میں بھیجنے سے۔ بے حیائی بچیوں کے ارمانوں اور خوابوں کا گلا گھونٹنا ہوتی ہے۔ نا کہ ان کے ارمانوں اور خوابوں کو پورا کرنا۔ بتائیے اونچی ناک والوں کو کہ عالمی برادری میں ہماری ناک غیرت کے نام پر اپنی ہی بچیوں کو روز قتل کرنے پر متاثر ہوتی ہے نا کہ بچیوں کے آسکر یا نوبل پرائز جیتنے پر۔


 مرد کی حاکمیت کا درس دینے والوں کو بتائیے کہ حاکم صرف اللہ تعالی کی ذات ہے باقی سب برابر ہیں۔ آپ کو ذہنی طور پر کمتر سمجھنے والوں کو بتائیے کہ محترمہ فاطمہ جناح، بےنظیر بھٹو، مریم نواز، اور بے شمار سیاستدان ، شاعرات ، ادیب ، مفکر ، ماہرین ، انجینئرز ، ڈاکٹرز ، سائنس داں ، خواتین بھی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں معیشت کا پہیہ بھی خواتین کی شرکت کے بنا چل ہی نہیں سکتا۔ اس لیئے سیاسی ایجنڈہ اور بیانیہ بھی اب خواتین  کیلئے تبدیل ہونا ضروری ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا سماجی بیانیہ بھی تبدیل کریں اور خواتین کے وجود سے انکار کے بجائے ان کے وجود کو تسلیم کریں ۔ ویسے بھی ہماری جہالت سے خواتین کا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔


 اس دن کی مناسبت سے دنیا میں بسنے والی تمام خواتین کو دنیا کو خوبصورت بنانے اور مہذب بنانے میں ان کے حصے پر خراج عقیدت پیش ہے  اور بے شمار دعائیں و نیک تمنائیں کاش ہمارا معاشرہ ایک مہذب معاشرے میں تبدیل ھو جائے - انشاءاللہ.....

No comments