Afsaana Beti written by Ayesha Ali

 افسانہ : بیٹی 

سرمئ شام تھی دن اپنے احتتام کو پہنچنے والا تھا، وہ ہاتھوں میں کپڑوں کا تھیلا اٹھائی ہوئی اپنے سوچوں میں گم جا رہی تھی، اوئے محترم کب سے ہارنا بجہ رہا ہوں کہاں گم ہو،اگر مرنے کا اتنا شوق ہے تو جا کر کہی اور مروں میری گاڑی کے آگے کیوں ا رہی ہو، وہ امیر ماں باپ کا اولاد تھا اپنی سنا کر گاڑی میں سوار ہو کر چلا گیا،جبکہ ناہید حسرت بھری نگاہوں سے اسے دور تک دیکھ رہی تھی،اس نے دل میں ایک اٹل فیصلہ کیا اب اس نے وہ کر کے دیکھنا تھا۔ ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی موقع ایسا آتا ہے جس سے اس کی زندگی بدل جاتی ہے اور  شاید اس کی زندگی میں بھی وہ موقع آگیا تھا۔

          **************************

"نادیا بیگم پریشانی سے چکر پہ چکر لگا رہی تھی، شام ڈھلنے کو تھا مگر ناہید کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ وہ ہمشہ شام ہونے سے پہلے گھر لوٹتی تھی مگر آج اس نے کافی دیر کر دی تھی، ارحم جا کر آپنی بہن کو گلی میں دیکھ آؤ رشیدہ خالہ کو کپڑے دینے گئی تھی مگر ابھی تک نہیں آئی رات ہونے والی ہے وہ ابھی تک گھر نہیں آئی،" تک کر نادیا بیگم نے اپنے دوسرے نمبر بیٹے کو اسے دیکھنے کا کہا۔

اچھا امی دیکھتا ہوں،اس سے پہلے کہ وہ آٹھ کر اسے دیکھتا ناہید گھر کے اندر داخل ہو گئی۔

"اسلام وعلیکم "ناہید نے سر سے چادر اتارتے ہوئے پالنگ پر بیٹھتے ہوئے سلام کیا۔

"یہ تمہارا وقت ہے گھر آنے کا،اج اتنی دیر کیوں لگا دی تم نے ،یہ لوگ کیا کہنگے کہ یہ کہاں سے آرہے ہیں"ناہید بیگم نے اسے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔

امی وہاں سے پیدل آئی ہوں میں، ٹائم تو لگتا ہے آنے میں آدھے گھنٹے کا سفر ہوتا ہے اتنی جلدی تو نہیں آسکتی میں اور رہی بات لوگوں کی باتوں کی تو اس کی اتنی پرواہ مت کریں چھوڑ دے،یہ لوگ کسی کو ایک حال میں بھی نہیں چھوڑتے لوگوں کا تو کام ہی ہے باتیں کرنا،اتے ہوئے ایک کام پڑا وہ کیا تو اس وجہ سے دیر ہو گئی آج۔

"اچھا ٹھیک ہے اب چھوڑ ان باتوں کو آٹھ کر نماز پڑھ لو اب" نادیا بیگم نے کمرے کے اندر جاتے ہوئے کہا۔

               *************************

نادیا بیگم اور عمر دنوں آپس میں کزن تھے شادی دونوں گھرانوں کے باہمی رضامندی سے ہوئے۔ شادی کے بعد اللّٰہ پاک نے اولاد جیسے نعمت سے نوازا، زندگی ہنستی مسکراتی گزار رہی تھی،جب بڑے بیٹے کا اچانک موت ہوا جس کا غم عمر برادشت نہ کرسکا اور کومے میں چلا گیا۔ گھر میں اور کوئی کمانے والا نہیں تھا نادیا بیگم بھی بیمار رہنی لگی ایسے میں ایک ناہید تھی جس نے گھر کو اس چھوٹی سی عمر میں سنبھالا، پڑھنا چھوڑ کر اس نے سلائی کڑھائی کرنا شروع کیا، اس سے جو پیسے آتے تھے وہ اس سے گھر کا خرچہ اٹھانے لگی۔

           *******************************

صبح سویرے اُٹھ کر نماز پڑی ،گھر کے کاموں کے بعد اپنے بھائیوں کو صاف ستھرے کپڑے پہنا کر بالوں میں کنگھی کر کے وہ تینوں بھائیوں کے ساتھ گھر سے باہر نکل پڑھی۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد ارسال کی آواز آئی اسے،اپی ہم کہاں جا رہے ہیں کسی شادی میں جا رہے ہیں کیا۔

اپنے بھائی کی بات سن کر ناہید ہکا سا مسکرائی نہیں چھوٹے شادی پر نہیں جا رہے کہی اور جا رہے ہیں ہم، جہاں سے تم لوگ نکلوں گے تو کچھ بن کر نکلوں گے، میں پھر سے تو تینوں کو سکول میں داخل کرا رہی ہوں، پڑھ لکھ کر تم تینوں نے کچھ بننا ہے، جب پڑھ لکھ کر کچھہ بن جاؤں گے نہ تم لوگ تو یہ دنیا تمہاری قدر کرے گی پھر ، کماؤ گے تم لوگ اپنے لئے،قدر یہ دنیا اس کے رہنے والےکریں گے تمہارے، کیونکہ یہاں صرف پیسے کی قدر ہے انسان کی نہیں۔

       *********************************

ان تینوں کو سکول میں داخل کرانے کے بعد وہ گھر لوٹنے کے بجائے رشیدہ حالا کے گھر گئی، گھر کے اندر داخل ہوکر وہ چل کر صحن میں پڑے پلنگ پر بیٹھ گئی، ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ کمرے کے اندر سے رشیدہ حالا کے بیٹی کی ہنسی کے آواز آئی جو اپنے بھائی سے کسی بات پر زید کر رہی تھی۔"بھائی میں نے کہا نہ کہ آپ اپنے شادی پر ڈانس کرینگے تو بس کرینگے ورنہ مجھ سے بات ہی نہ کریں آپ، اچھا ٹھیک ہے جیسے میری شہزادی کی مرضی اب حوش، جی بھایا بہت حوش" یہ باتیں سن کر ناہید پھیکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آگئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اس کا بابا ٹھیک ہوتا،اس کا بھائی زندہ ہوتا تو آج وہ بھی اسی طرح اس کے ساتھ زید کر رہی ہوتی، بھائی یہ لادو بھائی وہ کرو، بھائی یہ کرو، وہ بھی تو ایک لڑکی تھی اس کا بھی تو دل چاہتا یہ سب کرنے کو، یہی تو عمر ہوتی ہے لڑکیوں کے ناز نخرے اٹھانے کے اپنے بھائیوں سے اپنے ماں باپ سے، مگر اس کے نصیب میں یہ سب نہیں تھا کیونکہ حالات نے اس کی سب معصومیت چین لی تھی ،ان حالات نے اسے وقت سے پہلے سمجھدار بنا دیا تھا، وہ اپنے سوچوں میں گم تھی رشیدہ حالا کے آواز پر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔

"اسلام وعلیکم"ناہید بیٹی سب حیر ہے نہ۔

وعلیکم السلام جی سب حیر ہے الحمدللہ،خالہ اس دن آپ نے امی سے کسی سلائی کے سنٹر کا کہا تھا، خالہ میں اس میں سنٹر میں کام کرنا چاہتی ہوں، وہ جتنے پیسے دینگے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بس مجھے وہاں کام کرنا ہے۔

وہ تو ٹھیک ہے ناہید بیٹی ،مگر تمہاری امی نے انکار کیا تھا مجھے جب میں نے ان سے تمہارے لئے بات کہ تھی۔

"ہاں خالہ مگر مجھے اب ضرورت ہے اس لئے میں وہاں کام کرنا چاہتی ہوں میرے پاس یہ ہنر ہے اسی ہنر سے میں چند پیسے عزت کے ساتھ کما سکتی ہوں آپ پلیز میرے لئے وہاں بات کریں آپ کی بہت بڑی مہربانی ہوگی مجھے پر" ناہید سر جھکا کر رشیدہ خالہ سے ایسی کہہ رہی تھی، جیسے مجرم اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے۔

ہاں ناہید بیٹی میں ضرور بات کرونگی وہاں تمہاری لئے تم پریشان نہ ہو، تم میرے لیئے میری بیٹی ہی کی طرح ہو۔

بہت بہت شکریہ رشیدہ خالہ۔


         ********************************************

"بچوں کو کہاں لے کر گئی تھی، کہاں چھوڑ آئی ہوں انھیں تم ناہید" کمرے سے باہر نکلتے ہوئے ناہید سے پوچھ بیٹھی جو پالنگ پر بیٹھ کر کپڑے سی رہی تھی۔

امی میں نے ان تینوں کو پھر سے سکول میں داخل کرا دیا ہے۔ آج سے وہ پھر سے سکول جایا کرینگے۔

"یہ تم کیا کہہ رہی ہوں ناہید تم پاگل تو نہیں ہوگئی، ان کے پڑھائی کا خرچہ کون اُٹھائے گا ،گھر کا خرچہ مشکل سے پورا ہوتا ہے"نادیا بیگم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

امی آپ کیوں فکر کرتی ہے اللّٰہ مالک ہیں وہی مدد کرنے والا ہے،امی میں ان تینوں کی پڑھائی کا خرچہ اٹھاؤ گی ، میں دن رات ایک کر دونگی اور ہوسکتا ہے میں کل سے سنٹر بھی جانے لگوں کیونکہ آتے ہوئے میں رشیدہ حالہ کی طرف گئی تھی ان سے میں نے بات کی۔

سنٹر کی بات سن کر نادیا بیگم کو غصہ آگیا، تم کوئی سنٹر نہیں جاؤ گے یہ لوگ کیا کہنگے، رشتےدار کیا کہنگے ہاں۔

"امی آپ لوگوں کی باتوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دے یہ لوگ کیا نہیں کہتے، یہ لوگ کسی کو ایک حال میں بھی نہیں چھوڑتے اور رہی بات رشتےداروں کی تو انھیں ہمارے گھر کے حالات معلوم ہے آج تک کسی نے پوچھا ہمارا حال کہ ہم مر گئے ہیں یا جی رہے ہیں ،امی یہی وقت ہے یہی کچھ سال ہے ، وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائینگے تو کل کو کم از کم دوسروں کے محتاج نہیں ہونگے اپنا کمائے گے عیش کرینگے،اگر یہ وقت ہاتھوں سے نکل گیا تو ساری زندگی در در کے ٹکھرے کھائیں گے لوگوں کی طنز بھری باتیں سنے گے،امی مجھے کرنے دے مجھے نہ روکے آپ" یہ سب کہتے ہوئے ناہید نے اپنا سر جھکایا تھا کیونکہ وہ اپنے آنکھوں میں آئے آنسوں اپنے ماں کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

بیٹی کی یہ سب باتیں سن کر نادیا بیگم خاموش ہوگئی شاید وہ ناہید کی بات کو سمجھ گئی تھی

       ***************************

وہ تینوں بھائی سکول پھر سے جانا شروع ہوگئے تھے، ناہید بھی سنٹر جانا شروع کر دیا تھا، زندگی اپنی موج میں گزر رہی تھی۔

کل عید تھی سب عید کی تیاریاں کر رہی تھیں اور وہ بیٹھی کپڑے سی رہی تھی صبح کی۔اس کا سب سے چھوٹا بھائی طاہر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا، آپی مجھے بھی نئے کپڑے چاہیئے کل عید ہے، محلے کے سب بچوں نے نئے کپڑے بنائے ہیں مجھے نہیں پتہ مجھے بھی نئے کپڑے چاہیئے، وہ بچہ تھا زید کر رہا تھا اپنی ماں سے نہیں بہن سے کیونکہ اسے یقین تھا،کہ اس کی بہن اس کے لئے کپڑے لے کر دینگی چاہیے جہاں سے بھی ہو۔

اپنے چھوٹے بھائی کی فرمائش سن کر ناہید کا چلتا ہوا باتھ روکھ گیا کیونکہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے، کپٹروں کے سلائی سے جو پیسے آئے تھے وہ اس نے تنخواہ کے پیسوں کے ساتھ ملا کر اس سے گھر کا کرایہ ادا کیا تھا،اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جس سے وہ ان تینوں کے لئے کپڑے خرید لیتی۔

"اپنی بہن کو سوچوں میں گم پا کر طاہر نے اسے پھر پکارا آپی آپ سے کہہ رہا ہوں نئی کپڑے لے کر دینگی نہ آپ" اس نے پھر سے معصومیت سے کہا۔

"ناہید نے طاہر کی طرف دیکھا تو وہ اسے کی طرف چمکتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا،اپنی بھائی کے آنکھوں کے چمک دیکھ ناہید کو وہ چمک بجھنا اچھا نہیں لگا،ہاں انشاللہ کل تم تینوں نئے کپڑے پہنو گے"ناہید نے طاہر کی بالوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔

یاہو طاہر خوشی کی نغارے لگاتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔

    ***************************

رات کے اٹھ بجنے والے تھے مگر ابھی بھی تک اس سوچ میں تھی کہ وہ کریں تو کیا کریں ، وہ کس سے پیسے مانگتی کیونکہ آج تک اس نے کسی سے ادھار نہیں مانگا تھا اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور سلائی مشین سے پیسے نکل کر پھر سے گننی لگی وہاں پانچ سو روپے ،ان پانچ سو روپے میں کپڑے نہیں آسکتے تھے رات ہوچکی تھی کل عید تھی اور اس نے ابھی تک کچھ نہیں کیا تھا اس نے اپنی گردن موڑا تو اس کے بھائیوں کے چہرے پر ایک نا حتم ہونی والی مسکراہٹ تھی وہ اس مسکراہٹ کو کسی بجھا سکتی تھی اس نے کچھہ بھی کر کے بھائیوں کو کپڑے دینے ہیں اس عزم کے ساتھ وہ جیسی اٹھنی لگی اسے اپنی گود میں کچھ چمکتا ہوا محسوس ہوا ،اس نے ہاتھ بڑا کر اسے اٹھایا تو وہ اس کی بالی تھی جو اس کے کان سے نکل کر اس کے گود میں گر گئی تھی،یہ بالیاں اس کی بابا کے ہاتھوں کی ایک نشانی تھی اس کے پاس،ایک لمبی سانس اس نے ہارج کی اللّٰہ نے اس کی مدد کر دی ،اپنی دوسرے کان سے بھی دوسری بالی اتار لی اور چادر اوڑھ کر گھر سے نکل گئی۔ بازار پہنچی تو ہر طرف ایک گہما گہمی تھی ،لوگ عید کی خوشیاں منا رہے تھے،والدین اپنے بچوں کو عید کی شاپنگ کرنے لائے تھے ،ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھی ہر کوئی پانی کی طرح پیسہ خرچ کر رہا تھا ،کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ ایک وقت کی روٹی کھالے اور کسی کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ انھیں خرچ کرنے کا اسے پتہ نہیں ہوتا کہ چرچ کریں تو کیسے کریں۔چاند رات کو لوگ خوشیاں خریدنے آتے ہیں وہ بھی خوشیاں خریدنی آئی تھی مگر اپنے لئے نہیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لئے۔اس نے آخری نظر ان بالیوں کو دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔

        ***************************

زندگی ایک کھڑی دھوپ کی مانند ہے گزار ہی جاتی ہے، وہ کڑھتی دھوپ میں گھر آئی،چادر اتار کر وہ ابھی پانی پینے کے عارض سے اٹھی ہی تھی جب نظر اپنی پریشان ماں کے چہرے پر پڑی،امی کیا ہوا ہے کیوں پریشان ہیں آپ ،ارحم،ارسل ،طاہر تو ٹھیک ہے نہ  دوڑ کر اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے بی تابی سے پوچھا۔

"نادیا بیگم نے سر اٹھا کر اپنی اس انمول بیٹی کو دیکھا جس نے اس توڑے سے عرصہ میں اس گھر کو سنبھالا اس چھوٹی سی عمر میں، جس نے اپنی بھائیوں کو پڑھایا انھیں کامیابیوں کے طرف نزدیک کیا، انھوں اٹھنا بیٹھنا سکھایا،انھوں اچھے برے میں تمیز کرنا سکھایا،اس نے تو صرف اسے پیدا کیا جبکہ اس کی بیٹی نے ایک ماں کی طرح سب کو سمنھبالا وہ کیا تھی اسے کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا شاید آج تک کسی نے کیا ہوا،نادیا بیگم نے ہاتھ بڑا کر اسے کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا،تم میری انمول بیٹی ہوں میری پیاری سی بیٹی ہوں ،جو لوگ تمہارا رشتہ لے کر آئے تھے وہ جہیز زیادہ مانگ رہے تھے جو ہمارے بس میں نہیں تھا اس وجہ سے میں نے ان لوگوں کو انکار کر دیا" نادیا بیگم نے نم آنکھوں سے کہا اسے۔

"امی یہ بات تھی میں سمجھی پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے،امی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تب تک تو بلکل بھی نہیں جب تک میرے سب بھائی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔" ناہید نے اپنی ماں کی دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔

تم کیا ہو میری پیاری سی شہزادی،تمہارا بھی تو دل چاہتا ہوگا کہ تمہاری بھی کوئی ناز نخرے اٹھائے،تمیں بھی کوئی پیار دے ،جیسے تم سب کو پیار ومحبت دیتی ہوں بلکل اسی طرح کوئی تمہیں بھی پیار ومحبت دے۔

"امی میرے لئے سب سے پہلے آپ سب ہے آپ مجھ سے پیار کرتی ہے میرے سب بھائی مجھ سے پیار کرتے ہیں مجھے اور کیا چاہیے جب آپ خوش ہوتی ہے آمی تو میں حوش ہوتی ہوں جب آپ اداس ہوتی ہے تو میں اداس ہوتی ہوں اب خوش ہو جائیں آپ مجھے پیاری سی سمائل دے آپ" وہ اپنے سب غم اپنے اندر چھپا کر رکھتی تھی، اس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دینا تھا اگر وہ ظاہر کرتی تو اس کی ماں اداس ہو جاتی اور اس کی ماں  اداس ہو یہ اسے کہاں منظور تھا، ہاں اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ کوئی اسے بھی پیار ومحبت دے مگر دینے والا کوئی نہیں تھا اس کے لئے یہی کافی تھا کہ اس کی ماں بھائی اس سے محبت کرتے ہیں، اس نے کھبی شکوہ شکایت نہیں کی تھی اس نے سب رب پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ بہتر کرنے والا ہے، اللّٰہ نے اس کے قسمت میں بہتر سے بہترین لکھا ہوگا ، وہ مایوس ہونے والوں میں سے نہیں تھی کیونکہ اگر وہ ہمت ہارتی تو اس کے اپنوں کا کیا ہوتا اور یہ بات اسے منظور نہیں تھی۔

      *********************

زندگی ہو اور اس میں غم اور خوشی نہ ہو تو پھر وہ زندگی نہیں ہوتی ، زندگی میں ہر طرح کے حالات آتے رہتے ہیں مگر اس حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے جو ہمت ہارتا ہے گلے شکوے کرتا رہتا ہے تو وہ زندگی میں ان گلے شکوے کے علاؤ کچھ کر ہی نہیں سکتا، زندگی نام ہے جینے کا اس میں ہر طرح کے حالات آتے ہے مگر ہم انسان صرف زندگی کے ان لمحوں کو یاد رکھتے ہیں جس میں ہمیں کوئی غم یا تکلیف ملے ہوں، ہم زندگی کے ان لمحوں کو یاد ہی نہیں کرتے جس میں ہمیں خوشیاں بھی ملی ہوتی ہے، ناہید کے زندگی میں ہر طرح کے حالات آئے مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اس نے ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،اپنے ماں،باپ، بھائیوں کی ڈال بنی، خود زمانے کا تپتا ہوا دھوپ برداشت کیا مگر اپنے ماں،باپ، بھائیوں کے اوپر اس دھوپ کا سایہ بھی پڑھنے نہیں دیا۔ ان چار سالوں میں بہت کچھہ بدلہ تھا ،ناہید کی شادی ہوگئی اور اللّٰہ پاک نے ایک پیارے سے بیٹھے سے نوازا انھیں وہ سب پیار ومحبت جو اس نے دوسروں کو دی تھی اس سے کہی زیادہ پیار ومحبت کرنے والے اللّٰہ نے اس کے قسمت میں لکھا دی ان میں سے ایک اس کا ہمسفر تھا جو اس سے بے انتہا پیار کرتا تھا، ہاں ناہید نے اپنا کہا پورا کر دیا تھا اس کے سب بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے تھے، ارسل لکچرر بن گیا تھا اس کی بھی شادی ہوگئی ہے، ارحم بھی سکول کا ٹیچر بن گیا ہے اس کی بھی شادی ہوگئی ہے جبکہ طاہر سب سے چھوٹا اسے ایک فیکٹری میں جوب مل گئی ہے یہ تھی ایک چھوٹی سی کہانی ایک بہادر لڑکی کی جس نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا ،  ان سب بہن بھائیوں میں اتنی محبتیں ہے کہ یہ لوگ ہر ویک اینڈ پر اپنے گھر میں اکھٹے ہوتے ہیں ہلا گلا کرتے ہیں، رونقیں لگاتے ہیں، ہنسی مزاق کرتے ہیں،وہ لوگ جو ناہید پر تنقید کرتے تھے باتیں کرتے اس کے اوپر ہنسی مزاق کرتے تھے آج وہی لوگ اسے دیکھ کر رشک کرتے ہیں، ان لوگوں کی محبتوں کو دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ اجکل کے درو میں بھی کسی میں اتنی محبتیں ہوتے ہیں مگر وہ یہ بات نہیں سوچتے دور وہی ہے زمانہ وہی ہے بس لوگوں میں محبتیں بانٹنا اب نہیں رہا ہے، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محبتیں بانٹتے ہیں ان لوگوں میں ایک ناہید کا گھرانہ ہے جو ایک دوسرے میں محبتیں بانٹتے ہیں۔


                   تو گلشن ہے  تو شاد و  آباد رہے

                   اس آنگن کے یہ رونقیں آباد رہیں


ختم شدہ

1 comment: