Bchy bhrun sy Achy written by Mehreen Bilal Sialkot


 بچے بڑوں سے اچھے

مہرین بلال سیالکوٹ

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ بچے بھی اچھے ہیں اور ہم سے تو بہت ہی زیادہ اچھے ہیں۔ بچے جب آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں تو پل بھر میں یا کچھ ہی دیر ایک دوسرے کو معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن ادھر دوسری طرف ہم بڑوں کو دیکھیں اس کے بلکل الٹ ہیں۔ میں بہت سوچنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ آخر یہ ایسا کیوں ہے?تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کے بچے بچے ہی ہوتے ہیں وہ ہماری طرح نہ تو بڑے دل کے ہوتے ہیں اور نہ ہی ہماری جیسی بڑی سوچ رکھتے ہیں۔ انہیں نہیں پتہ ہوتا کہ اس ایک جھگڑے کے پیچھے کیا اور کتنی وجوہات ہیں اور یہ کیونکر ہوا۔ وہ تو بس اپنے من کی کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ انہیں بس اپنا آج لطف اندوز بنانا ہوتا ہے۔ وہ نہیں سوچتے کے معافی مانگ لینے سے ہماری کوئی عزت کم ہوگی یا ہماری کوئی انا کو ٹھیس پہنچے گی۔ وہ تو بس اپنی خوشی کے لیے سب کر جاتے ہیں۔ تو ہم بڑوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے بچپن میں اسی بڑے پن کو پانا چاہتے تھے کیا ہم صرف اور صرف نام کے بڑے ہیں نہیں نہیں ہم بڑے کہاں کے ہو گئے ہماری تو بس سوچ بڑی ہوئی اور وہ بھی ایسی کے ہمیں لگتا ہماری سوچ بڑی اور ہم بڑے ہیں لیکن حقیقت میں ہم بہت چھوٹے ہیں۔ دراصل ہمیں تو بچوں سے سیکھنا چاہیے کے بڑے کیسے بنتے ہیں اصل بڑے تو وہ ہیں جو جلد معاف کر دیتے ہیں اور معاف بھی صرف زبان سے نہیں دل سے اور پہلی ساری باتیں بھلا دیتے ہیں جبکہ انکے برعکس ہم بڑے ایک غلطی پہ سب کچھ بھول جاتیں ہیں اور معاف نہیں کرتے اور اگر معاف کر بھی دیتے تو دل سے کبھی نہیں کرتے اور ایسے ہی الٹی سیدھی سوچیں سوچتے رہتے- اور اپنے آپ کو اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے سے جوڑے تمام لوگوں کو مشکل اور پریشانیوں میں ڈالے رکھتے تو پھر کیا بچے بڑوں سے نہ ہوئے اچھے؟

No comments