Khwahish written by Ashi Khokhr Sialkot


 خواہش 

ازقلم۔ عاشؔی کھوکھر سیالکوٹ 


اُسے پانے کی خواہش کروں بھی تو کیسے کروں یہ جانتےہوۓ بھی کے وہ کسی صورت میرا نہیں ہوگا خود کو اک لاحاصل خواہش کے پیچھے رکھ کر اور کتنا درد برداشت کروں رگ رگ میں درد بھرا ہوا ہے جسے چاہ کر بھی ختم نہیں کیا جا سکتا کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ گہرے برف جیسے ٹھنڈے سمندر میں چلی جاؤں اتنا گہرا کہ کوئی انسان اس کی گہرائی کا اندازہ بھی نہ لگا سکے میں اسکی گہرائی میں ڈوب جاؤں پانی اتنا ٹھنڈا ہو کہ میرے من کی جلن رگوں میں خون کی جگہ بہتے درد کو مجمند کردےاورآنکھوں میں اُسےدیکھنےکی خواہش کو ٹھنڈا کردے ایسی ٹھنڈک جو موت کی ٹھنڈک ہو میرے تن من کو ٹھنڈا کردے ساری تکالیف کو جما دے۔اور کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ راتوں کو اٹھ کر سڑک پر چلتی جاؤں بنا کسی منزل کا تعین کیے بناکسی راہ کی پرواہ کیےاس بات سے بے خبر کہ کتنی دشواریاں آئیں گی راہ میں میں ننگے پاؤں اتنا چلوؤں اتنا چلوؤں کہ پیروں میں چھالے بن جائیں اور چھالوں سے خون رسنے لگے  اتنا کہ پاؤں لہو لہان ہو جائیں اور اسے پانے کی خواہش اس خون کے ساتھ دھیرے دھیرے کر کے میرے جسم سے بہہ جاۓ۔اور کوئی پوچھے کہ کیا ہوا؟میں روتے ہوۓ مگر مسکراتے چہرے کے ساتھ سر نفی میں ہلاؤں اور آنسو پونچھتے ہوۓ کہوں میں پاگل ہو گئی ہوں دنیا اُجڑ گئی میری کچھ بہت قیمتی کھو گیا میرا مجھ سے جسے میں ڈھونڈ رہی ہوں اسی اثنا میں ایک تیز رفتار گاڑی آۓ اور مجھے بُری طرح ہٹ کر جاۓ جب میں ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہوں تومیرے موبائیل پہ کال آۓ کا اٹینڈ کرنے کے لیے جب فون میرے کان سے لگایا جاۓ اور وہ صرف اتنا کہے"سُنو میں تم سے نفرت"اور ساتھ ہی میری سانسیں ٹوٹ جائیں اک لاحاصل کی خواہش لے کر میں اس دنیا سے چلی جاؤں گی اور وہ مسلسل ہیلو ہیلو کرے کوئی اتنا کہہ کہ کال ڈراپ کردے "sorry she is no more"

No comments