Masoom Roza Dar written by Armgan Nayab
معصوم روزہ دار
ارمغان نایاب
آؤ بچوں تمہیں سناؤں
ایک کہانی شہید احمد کی
رہتا تھا ماں باپ کے سنگ
وہ دور کسی بستی میں
پڑھتا تھا اسکول میں
مدرسہ بھی جاتا تھا
ماسٹر جی کا چہتا تھا
حافظ جی کا لاڈلا تھا
روز نمازیں پڑھتا تھا
سبق بھی یاد کرتا تھا
رمضان کا جب سنا اس نے
روزے کی خواہش کرتا تھا
پھر آگئے ایک دن رمضان
رحمت کو لے کر اپنے ساتھ
چاند دیکھ کر دعا پڑھی
پاپا کے ساتھ تراویح بھی
دوسرے دن پھر سحری کی
اور رکھا پہلا روزہ بھی
دوپہر تک ہنسی خوشی میں
روزے کو برداشت کیا
پھر لگی اسے پیاس بڑی
بھوک بھی پھر ستانے لگی
ماں نے کہا افطار تم کر لو
پھر شام تک روزہ رکھ لو
تم پر ابھی فرض نہیں ہے
روزہ تم دو ہی رکھ لو
"ہرگز نہیں" کہا یہ اس نے
روزہ میں نہ توڑوں گا
بھوکا پیاسا رہ لوں گا
افطار شام میں ہی کروں گا
دھیرے دھیرے دن گزر کر
افطار کا وقت قریب آیا
دستر پر ڈھیروں پکوان
مما نے اس کے لیے سجایا
پیاس کی شدت بڑھتی گئی
افطار کا وقت ہونے لگا
دستر پر سب بیٹھ گئے
دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے
احمد کی حالت بگڑنے لگی
سانس حلق میں اٹکنے لگی
پھر وہ نیچے گرنے لگا
اب نہ وہ سنبھلنے لگا
پاپا جب شربت پلانے لگے
ہاتھوں پر اس کو اٹھانے لگے
پینے سے اس نے منع کردیا
روزہ نا توڑوں گا صاف کہہ دیا
اذان ابھی تک ہوئی نہیں تھی
سماعت اس جانب ہی ٹکی تھی
ماں باپ پریشاں ہو چکے تھے
لاڈلے کی حالت دیکھ رہے تھے
حالت اس کی بگڑ چکی تھی
سانس بھی اب اکھڑ چکی تھی
مؤذن کی آواز جب ہے آئی
احمد کو موت لے چکی تھی
مسکراہٹ تھی معصوم چہرے پر
روزے کی شان تھی چہرے پر
No comments