Urdu Column written by Fakeha Naseer

معاف کرنے سے تکلیف کم نہیں ہوتی، نہ ہی زہنی پراگندگی بہتر ہوتی ہے۔ صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں مجھ پر کسی کا قرض نہیں رہا، کوئ سوالیہ نظروں سے دیکھنے والا نہیں رہا۔

 تکلیف، اذیت، درد کچھ ختم نہیں ہوتی بس ایک قیدی آزاد ہو جاتا ہے۔ ہم آزاد ہو جاتے ہیں ایک ان چاہی قید سے جس میں ہم نے خود کو باندھا تھا۔

 ظالم ہو یا مظلوم؛ قرض خواہ ہو یا قرضدار دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ معافی، تلافی اور ادائیگی ان کو ایک دوسرے کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔   *کیونکہ یہ قرض اور غرض کے رشتے صرف کندھوں پر پڑے بوجھ میں اضافہ ہی کرنے کا باعث بنتے ہیں اور ایسے اَن چاہے تعلق ٹوٹیں تو خوشی اور سکون ملتا ہے۔ * 


[معاف کرنا دراصل حقیقت قبول کرنے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے، ہم قسمت کے لکھے کو قبول کرنے کا سوچتے ہیں کہ ہاں جو بھی تھا جیسا بھی تھا گزر گیا ۔ ہم "کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟" کے مرحلے سے نکل کر "کیا ہوگا؟ کیا کرنا چاہیے؟" کے مرحلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔]


 اور اسکے بعد ہی تو ہم خود کو جوڑنا شروع کر سکتے ہیں کیونکہ ایک مرحلہ ختم ہو اب دوسرے کی طرف بھرنا ہے۔ اگلی سیڑھی پر قدم رکھنا ہے۔

Name~Fakeha Naseer

No comments