Unhoni Full story written by Nadia Tahir
عنوان: انہونی
ازقلم: نادیہ طاہر
"ہر وقت انہیں یوں کھلا نہ رکھا کرو"، ایمان جو کافی دیر سے لیپ ٹاپ سٹڈی ٹیبل پر رکھے آخری سمسٹر کی فائلز کمپائل کرنے میں مصروف تھی حنا اسکے لمبے ریشمی بالوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی حنا کی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر کہیں کچھ تھا کچھ کمی، حسرت اور خالی پن سا.
ایسا نہیں تھا کہ وہ ایمان سے کم خوبصورت تھی لیکن ایمان کے تیکھے نقوش اور سانولی رنگت پر اس کی خوبصورتی کو بڑھاتے سیاہ لمبے بال جو کمر سے نیچے تک آتے اسے بے حد دلکش بنا دیتے.
"کیوں مجھے تو انہیں کھلا رکھنا سنوارنا بہت اچھا لگتا ہے" وہ کہتے ہوئے ذرا پلٹی اور متوجہ ہوتے کہنے لگی، پتہ ہے حنا مجھے ان بالوں کا اپنے کندھوں پر سے گر کر کمر پر گھیرا بنا لینا ایسے لگتا ہے جیسے میرے اللہ کا یہ میرے لیے اور بس میرے لیے خوبصورت ترین تحفہ ہو میں انہیں ہر لمحہ سنوار کر بہت پیار سے رکھنا چاہتی ہوں"، وہ اپنی چچا زاد بہن حناسے اپنے دل کی بات کہتے اپنے خوبصورت بالوں پر ہاتھ پھیرتے کہہ رہی تھی.
" یہ بات تو ٹھیک ہے یار لیکن نظر بھی تو لگ سکتی ہےنا اور تم جانتی ہو نظر برحق ہے"
دو سال سے وہ حنا کے کہنے پر الگ کمروں میں شفٹ ہوگئی تھی اس کا کہنا تھا
کہ ان دونوں کو بھی ایک دوسرے سے پرائیویسی چاہیے ہوتی ہے لیکن درحقیقت وہ اس سے اندر کہیں کم تر ہونے کا شکار ہونے لگی تھی وہ اس سب سے کچھ وقت کے لئے آزادی پانے کی خواہش لئے الگ کمرے میں رہنے لگی تھی.
"نظر ہاہا اور کس کی نظر لگے گی مجھے؟ "، ایمان نے اسکی بات پر بے اختیار ہنسی روکتے ہوئے پوچھنے لگی.
"کیا مطلب نظر لگنے کو توکسی کی بھی لگ سکتی ہے جیسے چچی کی، آمنہ کی یا میری"، وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے بارے میں کہہ گئی.
"مائی ڈیر کزن ایسا نہیں ہوگا کیونکہ باہر میں کبھی حجاب کے بغیر گئی نہیں اور گھر والوں کی نظر لگ بھی جائے تو پیار کی ہی لگے گی اور اپنوں کی نظر کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی"
وہ کہہ کر حنا کے ہاتھوں پر تھپکی دیتی واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی.
وہ یونیورسٹی سے لوٹیں تو گھر پھپھو کو آئےدیکھ کر بہت خوش ہوئیں وہ کافی عرصے کے بعد اپنے بیٹے احمد کے ساتھ آئیں تھیں لیکن اچانک سے یوں پھپھو کا احمد کے ساتھ آنا ان دونوں کو حیران کر گیا تھا.
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ سب ایک ساتھ بیٹھےگفتگو کر رہے تھے کہ حلیمہ پھپھو نے ایمان کو پاس بلایا اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے حدید صاحب کی طرف دیکھتیں اپنے بیٹے احمد سے اسکی نسبت کی بات کرنے لگیں.
سب خوش تھے لیکن حنا کے چہرے پر بدلتے رنگ کسی نے نہیں دیکھے تھے جہاں وہ سب خوشیوں میں مگن تھے حنا اٹھی اور اپنے کمرے میں آ کر آئینے کے سامنے کھڑی خود پر چلا رہی تھی، "کیوں، کیوں ایسا میرے ساتھ ہی ہوتا ہےہمیشہ... ہر بار وہ مجھ سے میری خوشی کیوں چھین لیتی ہے آخر کیوں؟ ہر بار اسے مجھ پر برتری دی جاتی ہے اور آج احمد بھی مجھ سے چھین لیااس نے" وہ کہہ کرسسکیوں سے رونے لگی تھی.
حنا پہلے سے خاموش ہوگئی تھی لیکن اسے جب بھی موقع ملتا تو ایمان کو کچھ نا کچھ پینے کے لیے تھما دیتی اور ایمان بھی بخوشی پی لیتی کچھ دنوں سے ایمان کے رویے میں کافی تبدیلی آئی تھی ایسے جیسے عجیب ساچڑچڑاپن اس کے اندر آ گیا تھا اور وہ ہر روز کوئی ایسا خواب دیکھتی جس سے وہ ڈر کر روتے ہوئ نیند سےاٹھ جاتی وہ سب کچھ اسے خود کے حصار میں لیے ہوئے تھاگھر والے اس کی یوں شادی کے دن قریب پا کر ڈھلتی صحت اور گرتے بالوں سے بے حد پریشان تھے تمام چیک اپ کروا چکے تھے لیکن ڈاکٹرز کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آرہا تھا.
سب کے مشورے کے بعد وہ اسے عالم سیف اللہ کے پاس لے گئے جنہوں نے اس کی حالت دیکھتے ہی بتایا کہ وہ کسی شدید قسم کے جادو کی زدمیں تھی... کوئیتھا جو مسلسل اس پر جادو کر رہا تھا اور وہ سب جان کر اگلا مرحلہ اس کو اس سب سے آزاد کروانا تھا ایمان مسلسل ان سے دم اوردعاؤں کے بعد خود کو پہلے سے بہتر محسوس کرنے لگی تھی وہ جب ایمان پر کچھ آیات پڑھ کر پھونکتے تو وہ سایہ جو اس کے اندر گھر کر چکا تھا خود کو ظاہر کرنے لگا پہلے جو ایمان خود میں بے چینی محسوس کرتی تھی وہ وہ اس سائے کو خود سے جدا ہوتے محسوس کر رہی تھی وہ خود کو آزاد محسوس کرنے لگی تھی. عالم سیف اللہ نے حدید اور زکیہ بیگم کو علیحدگی میں سب بتا دیا تھا کہ اس گھر میں کون ایسا تھا جو یہ سب کچھ کروا رہاتھا جس پر وہ سب بے یقینی سے وجہ تلاش رہے تھے. بے شک اللہ کے ذکر سے ایمان کے وجود میں بہتری آنے لگی تھی کیونکہ اہل علم ہرکالے سائے کو پہچان جاتے ہیں اور اللہ انہیں اپنے علم سے نوازتا ہے تا کہ وہ اس کے بندوں کے کام آئیں.
حنا کی والدہ جو کہ ایمان کے ساتھ گئی تھیں آتے ہی حناسے اس سب کی وجہ اگلوانے لگی وہ پہلے پہل نا مانی لیکن جب ماں نے اصرار کیا کہ وہ اس ذلت سے بچنے کے لیے خود کو ختم کر دے گی توحنا نے فوراً سے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے وجہ بتا دی اور بتایا کہ کیسے وہ اپنی دوست کی والدہ سے ایمان پر جادو کرواتی رہی ہے اب وہ ایمان اور باقی سب سےمعافی مانگ رہی تھی لیکن ایمان جو ان سب باتوں سے لاعلم تھی جو اپنا تحفہ جو اس کا اللہ کی طرف سے تھا کھو چکی تھی اسے اس کے ندامت کے آنسوؤں کے ہمراہ وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئی وہ اسے معاف نہیں کرسکی تھی.
*اختتام*
No comments