Qalam e Khuda urdu column written by Binish Batool
قلم خدا
ازقلم : بینش بتول
قلم خدا یعنی خدا کا قلم وہ قلم جو کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس رب کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ایسا قلم ہے جسے چلانے والا وہ رب ہے۔ اس قلم سے اس خدا قرآن جیسی مقدس کتاب لکھی جس میں تمام انسانوں کے مقدر پہلے سے ہی لکھ دئیے گے ہیں۔ اسے مقدر کا قلم یا قسمت کا قلم بھی کہتے ہیں ۔ وہ قلم ایسا ہے جس کی تحریر سے تھک کر ہم اس رب سے یہ بھولتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں۔ کہ جو کچھ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے وہ سب اس کے اپنے ہاتھ کے کرتوت ہے اور کہتے ہیں کہ اے میرے رب تونے میرامقدر سہی نہیں لکھا'تو یہ سارے غم میرے مقدر میں ہی کیوں لکھ دئیے ہیں؟مجھ سے ایسا کونسا گناہ ہوگیا جس کے زمرے میں تو نے میرے مقدر میں غم لکھ دئیے ہیں؟ یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟میرا قصور کیا ہے؟ اس طرح کے کئی سوالات جو نا صرف اس قلم کے خلاف ہوتے ہے بلکہ اس کی تحریر کے خلاف ہوتے ہیں۔اور ہم دبے الفاظ میں اس رب کے فیصلوں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ اس رب کے فیصلوں کو جو روزے محشر کا مالک ہے۔ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اور انہی شکوک کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم میں سے چند افراد نے ماں کی محبت کو اللہ کی محبت پہ ترجیح دیتے ہوئے کہا اور لکھا " اگر مقدر کا قلم ماں کے ہاتھ میں دے دیا جاتا تو ماں اپنی اولاد کے مقدر میں صرف خوشیاں ہی لکھتی اور اپنی اولاد کو غم سے آشنا بھی نہیں ہونے دیتی ہے۔"
اور کچھ نے یہ بھی کہا " اگر میں اپنا مقدر خود لکھتا تو بہتر لکھتا۔" اور ہم جیسوں جنہوں نے کچھ نہیں کہا انہوں نے ان کی باتوں کو سن کر داد دی کیونکہ ہم میں سے کسی نےبھی واقع میں قلم خودکی تحریر لکھنے کی غرض سے پکڑ کر نہیں دیکھا اور نہ ہی اپنی ماں کے ہاتھ میں دیتے ہوئے یہ کہا کہ "ماں یہ قلم پکڑاور جو بھی لکھے یہ سوچ کر لکھے کہ اپنی اولاد کے مقدر لکھ رہی ہیں۔" اگر ہم میں سے ایک نے بھی قلم اپنا مقدر لکھنے کی غرض سے پکڑا ہوتا توہم جان جاتے کہ اگر ہم جیتنے غلط ہیں اور ہم یہ بھی جان جاتے کہ اگر ہمارا قلم اللہ کے سوا ہمارے پاس یا ہماری ماں کے پاس ہوتا تو ہمارے مقدر تو تباہی ہو جاتا اور ہم یہ بھی جان جاتے کہ اس رب کی تحریر بہت بہتر ہے اس تحریر سے جو ہم خود لکھتے یا اس تحریر کو ہماری ماں ہمارے لیئے لکھتی ۔ میں مانتی ہوں ہماری ماں ہم سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ اور وہ ہمیں خوش دیکھنا چاہتی ہے۔ اور واقع میں اگر ہماری ماں کو ہماری خوشیوں کے لیئے اپنی جان کا بھی صدقہ دینا پڑتا تو وہ بآسانی دے دیتی لیکن کبھی بھی اختیار ہونے پہ ہمارے مقدر میں صرف خوشیاں نہیں لکھ پاتی کیونکہ وہ رب جس کے ہاتھ میں ہمارے مقدر کا قلم موجود ہے وہ اپ۔ے بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ وہ اس ماں سے بہتر جانتا ہے جو صرف ایک ماں کی محبت کا اختیار رکھتی ہے۔ جو ایک ساتھ باقی کی انہتر ماؤں کی محبت سے ناآشنا ہے۔ کہ میرے بندے کو کب کس چیز کی ضرورت ہے۔ اور رہی بات ہماری کہ ہم کیا کرتے اگر ہمارے مقدر کا قلم ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو ہم کیا کرتے تو ہم اپنے مقدر میں ایک لمحے کا بھی سکون لکھ نہیں پاتے کیونکہ بہتر کی تلاش میں چیزوں کو بنا کر توڑنا یا بنی بنائی چیزوں کو برباد کرنا تو انسان کی عادت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی زمین کو کھود کر ' پہاڑوں کو توڑ کر' کبھی نہیں دیکھتا ۔ اور انسان کی فطرت میں شامل ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے ہمشہ سے بہتر کی تلاش میں بہتر سے بہتر گوا دیا ہے۔ اور اگر قلم خدا ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو اپنے سوا کسی دوسرے کا وجود ہی لکھنا پسند نہیں کرتے اور یہ دنیا کبھی وجود میں ہی نہیں آتی اور آج کے دن جب ہم اللہ سے شکایتیں کررہے یہ خواہش کرتے کہ کاش ہمارا قلم ہمارے خدا کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ بہتر لکھتا۔ اور اب جب ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ تو ہمیں خواہش اور شکوے کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تیرا قلم تیرے پاس ہے۔ جو تو نے لکھا ہے بہتر لکھا ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ہر حال میں اس کا شکر ادا کرے۔ غم میں بھی کیونکہ غم خوشیوں کی قمیت ہوتے ہیں۔ جب تک ہم وہ قیمت شکر گزاری کی شکل میں ادا نہیں ہوتی تب تک ہمیں خوشیاں نہیں ملتی ۔ ان دونوں کا تعلق بلکل محنت اور کامیابی کی ماند ہے۔ محنت کرو گے تو کامیابی پاؤں گے اسی طرح غم کاٹوں گے تو خوشیاں پاؤں گے۔ اور ان دونوں کامیابی اور خوشیوں کے لئیے وقت درکار ہے۔
Kml a
ReplyDeleteExcellent
ReplyDeleteبہت عمدہ رب العالمین بہت کے ذہن اور ہاتھوں کو مزید کمال کی صلاحیت سے نوازے الٰہی آمین
ReplyDeleteGood . Keep it up
ReplyDeleteMa Sha Allah
ReplyDeleteZaberdst
Keep continue
❤️
ReplyDeleteMashAllah Allah apko or likhny ki tofeeq dye Ameen
ReplyDelete