Saber ka phal mitha hota hai written by Swaira Arif Mughal

نام : سویرا عارف

شہر : گجرات 

صنف : داستان

عنوان :" صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے"

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ایک عورت بہت غریب تھی اور اس کا شوہر اس کو چھوڑ کر جاچکا تھا ۔

اس عورت کا ایک چھ سال کا بیٹا تھا جس کا نام علی تھا۔

اوہ کپڑے سلائی کرکے اپنے گھر کا گزارا کرتی

عید آتی تو وہ اپنے اور اپنے بیٹے کے  نئے کپڑے خریدنے کی بجائے 

ساری ساری رات کپڑے سلائی کرکے اپنے گھر کا  گزارا کرتی ۔

ایک دن بیٹے نے بہت ضد کی کہ مجھے کھلونا دلوا کر دو اماں!

خدیجہ بے شک ایک غریب عورت تھی مگر اپنے بیٹے کی تمام تر خواہشات پوری کرتی اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس کی مرضی کی ہر چیز دلوا کردیتی!

اماں بازار نکلی تو راستے میں کھلونے کی بڑی سی دکان دیکھ کر علی نے بہت شور مچا دیا۔

خدیجہ کے منع کرنے کے باوجود وہ س دکان میں چلا گیا۔

خدیجہ کہنے لگی یہ بہت بڑی دکان ہے بیٹا میرے اتنے پیسے نہیں !

اس دکان میں نے جاؤ میرے بیٹے!

لیکن علی ایک صدی بچہ تھا اور ابھی بہت کم سن تھا۔

اس نے ایک بہت مہنگے کھلونے پر ہاتھ رکھ دیا۔

دوکاندار نے بہت بدتمیزی سے اسے کہا اووے چل ہٹ اگر بڑی چیزیں خرید نہیں سکتے تو بڑی دکانوں میں کیوں گھس آتے ہو!

خدیجہ نے جب مزید منت کرکے کھلونا سستا کرنے کو کہا 

تو اس نے زبردستی دکان سے دھکے دے کر نکال دیا۔

علی  نے جب اپنی ماں کو اداس دیکھا تو اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے ۔

اس نے روتے ہوئے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنا منہ صاف کیا 

اور اپنی ماں کو لیکر وہاں سے باہر آگیا۔

تھوڑی ہی دور آئے کہ ایک بینک نظر آیا 

وہاں باہر ایک چوکیدار بیٹھا ہوا تھا۔

ماں نے گزرے ہوئے اس چوکیدار کو دیکھا تو تو رک گئی۔

اور اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اس نے ہمیں غربت میں یوں تنہا چھوڑ دیا

ہاں بالکل یہ اسی ننھے منھے علی کا ماں باپ تھا۔

ماں نے علی کو بیت محنتوں سے پڑھا لکھا کر بڑا کیا ۔

اکثر پوچھتا تھا کہ بابا کہاں ہیں میرے؟

 اس کے یہ سوال پوچھنے پر ماں خاموش ہوجاتی !

آخر کار اک روز اسی خدیجہ نے اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا کیا اور یہ ہی علی ایک دن ایک بینک کا مینیجر بنا۔

علی جب مینجر بنا تو اس نے  وہاں کے تمام سٹاف کو مٹھائی تقسیم کی ۔

اچانک ایک بوڑھے آدمی نے کہا ہمارے نئے مینجر کا نام کیا ہے

انہوں نے کہا وہ صاحب بہت محنتی انسان ہیں ۔

سر علی ہے ان کا نام۔

علی پیچھے کھڑا مسکرا رہا تھا اور آکر بوڑھے کے سامنے کھڑا ہوگیا

اور کہنے لگا اور یہ علی آپ کا واحد اکلوتا بیٹا ہے۔

باپ رونے لگا ۔

اور اس کے پیروں میں گر گیا 

کہنے لگا میرا بھی بہت دل کرتا تھا آپ دونوں سے ملنے کو بہت یاد کرتا تھا بیٹا میں تمہیں!

باپ کہنے لگا علی  میں نے آپ دونوں کو تنہا چھوڑ دیا تھا مگر تم نے اپنی ماں کو نہیں چھوڑا اور ہوسکے تو بس بیٹا مجھے معاف کر دینا

علی نے باپ کو اٹھا کر گلے لگایا۔

اور اس کے لیے ایک مکان لیا ۔

کہنے لگا بابا لفظ کیا ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم

لیکن مجھ پر جتنا میری ماں کا حق ہے اتنا ہی آپ کا بھی ہے۔

اب آپ کی آرام کرنے کی عمر ہے بابا آپ ہمارے ساتھ بھلے ہی نا رہیں مگر اب سے آپ کو بیٹا آپ کا خرچہ اٹھائے گا ۔

میں اور والدہ بھی آپ کو ہرپل بہت یاد کرتے تھے۔

یوں علی نے اپنی لگن اور ماں کی محنت سے  اپنی منزل پا لی اور ایک خوشحال زندگی بسر کرنے لگا۔

1 comment: