Neend by Biya Mehmood
نیند
سنو جاناں
جیسے ہی سونے کے لیے میں نے
بند کی اپنی سنہری آنکھیں
جھلملایا عکس تمھارا
آنکھوں کے پردے پہ
ٹھہری نمی آنکھو ں میں جاناں
یادوں کے دریچے جو وا ہوۓ
سو نہ پاۓ ہم جاناں
نیند ہوگئی رخصت ہماری
یاد آنے لگے وہ سارے بیتے پل
تھے ساتھ تیرے جو بتاۓ
وہ خوشیوں بھرے لمحے
جھانکنے لگے یادوں کی چلمن سے
تمھاری سب باتیں یاد بے حساب آئیں
دل کیا میں دور نکل جاؤں کہیں
کہ یہ سب مجھے نے تڑپاۓ
کسی ایسی جگہ جاؤں میں جاناں
جہاں میرے اندر کی وحشت کم ہوجاۓ
چھا جاۓ سکوت و خاموشی
کوئی مجھ سے ہم کلام نہ ہو
سواۓ ان حسین پلوں کے جاناں
جن میں تم بس میرے تھے
دل کررہا ہے میرا یہ جاناں
چلاؤں اس قدر میں کہ
میرے اندر کی وحشت بھی گھبرا جاۓ
وہ بیتے پل مجھے جاناں
بھولے سے بھی نھیں بھولے
ہر رات جلاتے ہیں بے دردی سے
وہ اذیت کی بھٹی میں مجھے
میں جب بھی تم سے بات کرتی ہوں
میں خود کو بھول جاتی ہوں
ذہن خالی سا ہوجاتا ہے میرا
لگتا ہے محبت مر رہی ہے دھیرے دھیرے
کہ اب نہ سانس وہ لے پاۓ گی کبھی جاناں
لیکن تمھارے دو بول ہی کافی ہیں جاناں
جو روز میری محبت کو نئی زندگی کی نوید دیتے ہیں
رگوں میں دوڑنے لگتی ہے
پھر سے تمھاری محبت جاناں
میری آنکھیں بھر سی جاتی ہیں
ہنسی روٹھی سی لگتی ہے
میں سونے کی کوشش کرتی ہوں
مگر نیند میری جاناں مجھ سے
اب خفا خفا سی رہتی ہے
وہ تم سے محبت کی وفا نبھاتی ہے
سنو جاناں
میری محبت کو قرار دے دو نہ
اب نہ ستاؤ تم کہ مجھ میں
نھیں ہے حوصلہ بالکل بھی
مجھے تم میری نیندیں لوٹا دو نہ
کہ نیند اب مجھ سے روٹھ گئی ہے
Biya Mehmood
No comments