Bat sy bat bnaty hain hum urdu poetry written by Aliya Bashir


 بات سے بات بناتے ہیں ہم 

صرف تجھ سے بات بڑھانے کے لیے

درد بہاتے ہیں اپناالفاظ کے سہارے

فقط لکھتے نہیں داد پانے کے لیے

اڑ گئے پنچھی ، برباد ہو گیا گھونسلہ

بچا کچھ بھی نہیں گھر بسانے کے لیے

مرنا اگر ہوتاہے اتنا ہی آسان


لوگ بھاگتے ہیں کیوں جان بچانے کے لیے؟

اس شہر برباد میں پر پھیلائے

نفرت بیٹھی ہے زہر پھیلانے کے لیے 

کوئی مسرور ہے یہاں خود کو مٹا کر

کوئی رو رہا ہے خود کو مٹانے کے لیے 

کوئی چھپا رہا ہے غم کو قہقہوں کی گونج میں

کوئی محو انتظار ہے آنسو بہانے کے لیے 

یہاں کوئی نہیں بانٹتا غم دوسرں کے

کہ بوجھ اپنا ہی بہت ہے اٹھانے کے لیے 

کوئی بیٹھا ہے مہ خانے میں صنم کو بھلانے

کوئی بیٹھا ہے مسجد میں"اسکا عشق"پانے کے لیے

کوئی مگن ہے دنیا میں اسے بھول کر

کوئی دنیا بھول رہا ہے اسے پانے کے لیے 

خود شناسی اسی دن آئے گی تجھے 

جس دن "میں" کو توڑا تو نے خود کو بنانے کے لیے

اے خاک کے پتلے "میں" کے خول سے نکل 

اسے پل نہیں لگے گا تجھے خاک میں ملانے کے لیے

عالیہ بشیر

1 comment: