وہ اک لڑکی جو کبھی ڈرتی تھی
از قلم ثمرین مسکین
عنوان :انتظار
شہر:اٹک
وہ اک لڑکی
جو کبھی ڈرتی تھی
بارشوں کے برسنے سے
بادلوں کے گرجنے سے
بجلی کے چمکنے سے
دبکے بیٹھی رہتی تھی لحاف میں
جب تھم جاتی بارش
تب باہر وہ آتی تھی
لیکن اب اسے ڈر نہیں لگتا
اب دعائیں وہ کرتی ہے بارش برسنے کی
اب اسے بھیگنا اچھا لگتا ہے بارش میں
اسے انتظار رہتا ہے بارش کا
کیونکہ کہ وہ بارش میں بھیگ کر
اپنے سارے دکھ بارش کے ساتھ بہا دیتی ہے
وہ آنسو بارش میں دکھائ نہیں دیتے
وہ بظاہر بارش میں بھیگتے ہوئے مسکراتی ہے
مگر اپنے اندر کی آگ کو وہ بارش میں بھیگ کر بجھاتی ہے
بارش اسکے زخموں کو دھوتی ہے
مسلسل اسکے آنسوؤں کے ساتھ برستی جاتی ہے
اس لیے تو اسے اب بارشوں سے ڈر نہیں لگتا
اسے انتظار رہتا ہے بارش کا۔
No comments