Afsaana Captain Shuja k Nam written by Ayesha Ali
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
*"جنون"*
*کیپٹن شجاع کے نام*
*✍🏻عائشہ علی*
شام کا وقت تھا۔ہر طرف چھ ستمبر کا شور مچا ہوا تھا جس کے تیاریوں میں سب لگے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں کیوں ان تیاریوں کو دیکھ کر میرا دل گھبرا سا گیا تو اٹھ کر میں امی کے پاس بیٹھ گئی۔ امی بھائی سے بات ہوئی وہ کب آئے گا کل ان کی سالگرہ بھی ہے اس بار تو ان کو آنا چاہیے" محمل نے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی۔
"ہاں بیٹا پرسوں بات ہوئی تھی کل اس کی واپسی ہے کہہ رہا تھا اس بار ضرور آؤ گا، میرا بھی اس کو بہت دیکھنے کو دل کر رہا ہے چار ماہ ہوگئے ہیں اسے دیکھے ہوئے", اس نے سر جھکا کر افسردگی سے کہا۔
"ارے امی کیوں پریشان ہوتی ہے بھائی نے کہا کہ وہ ضرور آئے گا تو اس کا مطلب ہے وہ ضرور آئے گا۔ آپ کو پتہ تو ہے وہ اپنی باتوں کا کتنا پکا ہے وہ جو کہتا ہے پھر اسے پورا بھی کرتا ہے" محمل نے ماں کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے پیار سے کہا۔
انشاءاللہ، اللّٰہ کرے خیر سے آئے میرا بیٹا، اپنی بات کہہ کر وہ سر جھکا کر پھر سے تلاوت کرنی لگی۔وہ ماں تھی کئی دنوں سے وہ عجیب سی خواب دیکھ رہی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہنی لگی تھیں۔
••••••••••••••••••••••
صبح سے موسم کے تیور بدلے ہوئے تھے۔آسمان پر روئی جیسے بادلوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ابھی توڑی ہی دیر گزری تھی کہ تیر موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ محمل اداسی سے بیٹھی ریڈیو سن رہی تھی جہاں چھ ستمبر کی یاد میں ریڈیو پہ کوئی نشریات چل رہی تھی۔ صبح سے نادیہ بیگم کا دل گھبرا سا رہا تھا جیسے وہ کچھ کھونی والی ہے۔ وہ اداسی سے دروازے کو تھک رہی تھی۔ ابھی توڑی دیر گزری تھی جب دروازے پر دستک کی آواز نے محمل کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔محمل نے ریڈیو بند کر کے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔دروازے تک پہنچ کر اس نے دوپٹے کو حجاب کے شکل میں لیتے ہوئے جیسے ہی دروازا کھولا سامنے فوجیوں کے دستے کو کھڑا پایا۔ محمل حیران نظروں سے انھیں تک رہی تھی اور ان میں اپنے بھائی کو تلاش کر رہی تھی۔ میرا بھائی کہا ہے" دھڑکتے دل کے ساتھ ہمت کر کے بالآخر اس نے پوچھ لیا۔
ہم لوگ کیپٹن شجاع کی شہادت کی خبر لے کے آئے ہے۔جس آپریشن کے لئے وہ گئے ہوئے تھے،وہاں سے واپس آتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے حفاظت کرتے ہوئے انھوں نے جام شہادت نوش کیا۔
محمل بے یقینی سے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو سر جھکا کر مؤدب انداز میں اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگئے تھے۔کسی چیز کے گرنے کی آواز پر محمل نے نم آنکھوں سے پیچھے موڑ کر دیکھا تو اپنی ماں کو بے یقین نظروں سے اپنی طرف تکتے ہوئے پایا جس کے چہرے پر آنسو کی لڑیاں بہہ رہی تھی۔ شوہر کی شہادت کے بعد آج بیٹے کے شہادت نے اسے توڑ دیا تھا، تھی تو وہ ایک عورت کمزور لاچار بے بس۔
سانس ساکن
ہوا خوش کن
فضا رنگین
آۓ ماہ جبین
سانس مہکی
آواز چہکی
رضا تیری
دعا میری
دل دھڑکا
چاند چمکا
ہوئی منادی
لو آیا غازی!
••••••••••••••••••••••••••
ہاں آج کئے برس بعد بھی مجھے چھ ستمبر کا وہ دن وہ لحمہ یاد آتا ہے۔ بھائی کے شہادت کے چند دن بعد امی نے میرا نکاح کر دیا اور بھائی کے یاد میں خالق حقیقی سے جا ملی۔ اب بھی اکثر بھائی کی ایک بات ذہن کے دریچوں پہ دستک دیتی ہے جو اکثر مجھ سے کہا کرتے" گڑیا کبھی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھنا تمہیں چھ ستمبر کے بارے میں پتہ چل جائے گا اور میں ہنس کر اکثر ان کے اس جواب کو نظر انداز کیا کرتی اور کہا کرتی بھائی آپ کو فوج سے اتنا جنون کیوں ہے اور وہ میری بات کے جواب میں فقط اتنا کہتے مجھے شہادت کا جنون ہے" آج کئے برس بعد مجھے ان کی کہی ہوئی بات کی سمجھ آئی، جس نے کسی اور کی گولی کو اپنے سینے پہ کھا کر کسی کی سہاگ کو اجاڑنے سے بچایا،اپنی بیٹی کو دنیا میں آنے سے پہلے یتم کرکے کسی اور کو یتیمی سے بچا لیا۔ نہ ماں نہ بہن نہ بیوی نہ اپنے بچے کے بارے میں سوچا، سوچا تو بس اللّٰہ کے راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے بارے میں سوچا۔
اس نے نم آنکھوں سے تصویر پر ہاتھ پھیری اور چوم کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ یہ تب کی تصویر تھی جب اس کا بھائی ٹریننگ مکمل کر کے آیا تھا۔ تب ماں کو سلوٹ کرتے ہوئے اس نے پیچھے سے چپکے سے یہ تصویر لی تھی جو آج تک اس کے ساتھ محفوظ تھی۔
لگانے اگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دئے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کے فضائیں سلام کہتی ہیں
اے راہ خق کے شہیدوں
تمہیں وطن کے ہوائیں سلام کہتی ہے
ختم شدہ
No comments