Gumnam Hero by Samreen Maskeen | گمنام ہیرو ثمرین مسکین
✒️:ثمرین مسکین
شہر: اٹک
عنوان: گمنام ہیرو
سکندر صاحب ہر لفظ کو پڑھتے جارہے تھے اور آنسو روانی سے انکی آنکھوں سے بہتے جارہے تھے انھوں نے یہ سوچتے ہوئے آنکھیں صاف کیں کہ وہ شاھین بیگم کو کیسے بتائیں گے کہ انکے بیٹے نے کن مصائب سے گزر کر جامِ شہادت نوش کیا۔
****
سجل بھاگتی ہوئ سکندر صاحب کے پاس آئ بابا،بابا پھولی سانسوں کے ساتھ اسنے باپ کو پکارا
سکندر صاحب نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑا اور سجل سے مخاطب ہوئے کیوںں سجل بیٹا خیر تو ہے؟
وہ پہلے ہی اسجد کی باتوں سے سنبھل نہیں پارہےتھے کہ کسی انہونی نے انکی دل کی دھڑکن کو مزید تیز کردیا
سجل نے کہا! بابا باہر کوئ فوجی افسر آئے ہیں آپ کا پوچھ رہے ہیں۔سکندر صاحب جلدی سے اٹھے اور باہر کی جانب لپکے۔۔
دروازے پر جا کر جو خبرسکندر صاحب کو ملی اس خبر سے ایک بار پھر انکی آنکھیں اشکبار ہوئیں ۔
ایک آفیسر آگے بڑھا اظہر کی وردی سکندر صاحب کے سامنے کی اور کہا کہ آپکے بیٹے نے جس بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا تاریخ کبھی نہیں بھول پائے گی۔وہ ایک بہادر نوجوان تھا ملک کےلیے کئ طرح کی قربانیاں دیں،اور اسی کے ساتھ اپنی جان کی قربانی دے کر سرخرو ہوگیا۔
سکندر صاحب اپنے دونوں بیٹے وطن پر قربان کرچکے تھے ایک گمنام ہیرو تھا اور دوسرے کو توپوں کی سلامی کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا انکو اپنے دونوں بیٹوں پر فخر ہوا۔
شاھین بیگم جب دروازے کے پاس سکندر صاحب کو دیکھنے آئیں تو اپنے بیٹے کی وردی دیکھی تو رونے لگیں ،سکندر صاحب نے کمال ضبط سے کہاکہ اس گھر میں میرے بیٹوں کی شہادت پر کوئ نہیں روئے گا۔
دو کیا اگر میرے دس بیٹے ہوتے تو میں انھیں بھی وطن پر قربان کردیتا یہ کہہ کر وہ سٹڈی روم میں چلے گئے اور باقی کی ڈائری کے اوراق پڑھنے لگے۔
شاھین بیگم ابھی تک اسجد کی شہادت سے بےخبر تھیں شاید اس لیے نہیں پوچھا کہ سکندر صاحب نے ایسا کیوں کہا؟
******
سکندر صاحب کے دو بیٹے اظہر اور اسجداور ایک بیٹی سجل ہے۔
اظہر نے ایف اے کے بعد آرمی جوائن کرلی تھی اور تین سال بعد شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوا۔
اسجد ایف ایس سی کا طالب علم اور بہت ذہین اور محنتی لڑکا تھا۔
اور سجل دو بھائیوں کی اکلوتی اورلاڈلی بہن ہونے کا فائدہ اٹھاتی رہی اور میٹرک کی طالبہ ہےلیکن اب اسکے لاڈ اٹھانے والے دونوں بھائ اپنی اپنی منزل پر چلے گئے ۔
****
سکندر صاحب ایک گاؤں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے ایک ایماندار شخص تھے۔انھوں نے اپنے بچوں کآ پیٹ ہمیشہ حلال سے بھرا،کبھی ایک لقمہ بھی انکے حلق سے حرام کا نہیں گزارا،یہاں تک کہ کبھی کبار نوبت فاقوں تک بھی آجاتی تھی لیکن ہمیشہ اللہ کے شکر گزار رہے۔وہ کلرک کا کام کرتے تھے۔پھر اللہ نے انکے شکر کی بدولت انکے رزق میں برکت ڈالی۔انکے بچوں نے بھی اپنی محنت اور اس وطن کی مٹی سے محبت کی وجہ سے یہ مقام پایا ۔
****
شاھین بیگم تو رونے میں اسقدر مصروف تھیں کہ سکندر صاحب کی باتوں پر غور نہ کرسکیں کہ انھوں نے کیا کہا ؟لیکن سجل کے دماغ میں کچھ کلک ہوا اور وہ سیدھااپنے بابا کے پاس گئی اور پوچھا کہ بابا آپ نے ایسا کیوں کہا کہ میرے بیٹوں کی شہادت پر کوئ نہیں روئے گا؟
بابا شہادت کی خبر تو اظہر بھائ کی آئی ہے اسجد کہاں ہے؟
بتائیں بابا اسجد کہاں ہے؟
بابا وہ گھر کیوں نہیں آیا اسنے تو کہا تھا ایک دو دن میں آجاؤنگا بابا بتائیں اسجد کہاں ہے؟
سکندر صاحب بھی ضبط کھو بیٹھے اور سجل کو گلے لگا کر رودئیے۔
سجل بیٹا! میرا اسجد گمنام ہیرو ہے لیکن بیٹا اس نے کہا کہ یہ خبر ہم کسی کو نہیں دیںگے کسی کو نہیں بتائیں گے کہ وہ کہاں ہے۔
جاؤ آپ ماما کو بھی بلا لائیں میں آپ دونوں کو بتاتا ہوں کہ اسجد کہاں ہے؟
جب سجل اپنی امی کو بلا کر لائ تو سکندر صاحب نے انھیں ایک ڈائری دکھائ اور کہا کہ یہ اسجد کی ڈائری ہے۔اسکا۔دوست مجھے کل دے کر گیاہے۔شاھین بیگم نے جلدی سے کہا :کیا ہے اس ڈائری میں اور اسجد خود کہاں ہے؟
سکندر صاحب نے کہا حوصلہ رکھو بیگم آپ دو شہید بیٹوں کی ماں ہونے کا اعزاز پاچکی ہیں اسجد اس مٹی کا گمنام ہیرو ہے۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہم سب کی زندگیاں خطرے میں پڑیں اس لیے اسنے یہ کام خفیہ طریقے سے کیا اور شہادت پائ۔یہ ڈائری پڑھ لیں
اسلام علیکم
بابا میں یہ ڈائری ایک دوست کے ہاتھ آپ تک پہنچاؤں گا۔
آپ سب یہ ڈائری پڑھ لیجیئے گا۔جب یہ آپ لوگ پڑھیں شاید میں نہ رہوں ۔بابا میری دھرتی مجھے پکارتی ہے میں چین کی نیند سو نہیں پاتا۔میں معصوم بچوں کے خون سے رنگین ہوتی گلیاں نہیں دیکھ سکتا۔میری وطن کی بیٹیاں مجھے بلاتی ہیں انکی سسکیاں مجھے سنائ دیتی ہیں۔جو کچھ میں اپنے وطن اور لوگوں کےلیے کرسکتا ہوں میں وہ کرنے جا رہا ہوں۔
بابا سجل کابہت خیال رکھیئے گا۔
بابامیں جب کام کے سلسلے میں یونیورسٹی نہیں جاسکتا تھا تو وہ پاگل کہتی تھی بابا کو بتاؤنگی کہ اسجد آوارہ ہوگیا ہے پڑھائ پر توجہ نہیں دیتا اب۔
لیکن میں اس پگلی کو کچھ بتانہیں سکتا تھا کہ اس ایک بہن کے علاوہ میری بہنیں ہیں اس وطن کی بیٹیاں ہیں جنکو میری ضرورت ہے۔میں اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ کہیں بہنوں کی چادر بننے جا رہا ہوں میں۔بابا وہ بہت معصوم ہے اسکا خیال رکھئیے گا۔میں اور اظہر بھائ تو جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں۔کیا پتہ کہاں جان کی بازی ہار دیں لیکن سجل کی حفاظت آپکو کرنا ہوگی۔امی کا خیال رکھیئے گا انہیں کہیے گا کہ رونا مت شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے شہید کبھی مرتا نہیں ہے۔
ہمارے آبائی گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک گروہ ہے جو نوجوان لڑکیوں ،بچوں اوراسلحے کی کرتے ہیں۔
نوجوان لڑکیوں کو فروخت کرتے ہیں جبکہ بچوں کے جسم پر بم باندھ کر حملے کرواتے ہیں۔
میں انکی کھوج میں گیا اور آہستہ آہستہ انکے گروہ میں شامل ہوگیا۔انکا رازدار بنتا گیا۔
بچوں کو مارا پیٹا جاتا تھا کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا۔میں خون کے آنسو پیتا رہا مجھے مناسب وقت کا انتظار تھا۔میں نے ان لوگوں کو کہا تھا کہ میں کوئ کام کاج نہیں کرتا اور میرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔مڈل تک سکول پڑھا لیکن نہ پڑھنے کے برابر۔
انھوں نے مجھے کام کی آفر کی میں کام میں لگ گیا۔
جب ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ میں انکے بھروسے کا بندہ ہوں تو ان لوگوں نے مجھے اپنے خفیہ رازوں میں شامل کرنا شروع کردیا۔
میں دو دن گھر نہیں آسکا مجھے افسوس ہے لیکن کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی۔انکے بڑے بڑے گروہوں کی میٹنگ تھی جسیں سب لوگوں کی شرکت تھی تو میں اس موقعے کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
ان کا اگلا ٹارگٹ سکولوں میں منعقد چھ ستمبر کے پروگراموں میں بچوں کے ساتھ بم باندھ کر بھیجنا تھا
میں اس کھیل کو ختم کرنا چاہتا تھا جس میں نامور بیس دہشت گرد شامل ہیں۔
میں اپنے جسم پر بم باندھ کر سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچاؤں گا اور ان بیس کتوں کو جہنم واصل کروں گا۔
بابا مجھے سب شیروز کے نام سے جانتے ہیں۔میں آپ سبکی زندگیوں کو خطرے میں
نہیں ڈال سکتا،میں نہیں چاہتا کہ میڈیا والے گھر تک آئیں اور سوال کریں۔میں اس مٹی کا گمنام ہیرو رہنا چاہتا ہوں
ہوسکتا ہے جس وقت یہ ڈائری آپ کو ملے میں نہ رہوں اس وقت تک۔
اور ہاں بابا میں نے آپکو اس لیے نہیں بتایا تھا کہ آپ بیٹے کی محبت میں اس مٹی کو نہ بھول جائیں اور مجھے اس کام سے منع نہ کردیں۔
میں آپ سب کا گمنام ہیرو
اسجد۔
سجل اور شاہین ڈائری پڑھ کر دیر تک روتی رہیں۔
***
باہر ٹی وی لاؤنج میں سکندر صاحب ٹی وی آن کیے بیٹھے تھے
ایک طرف اظہر کی شہادت کی خبر چل رہی تھی اور دوسری طرف بیس نامور دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے والے شہروز نامی لڑکے کی خبر چل رہی تھی۔
شہروز نامی نوجوان جس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے کئ قیمتی جانوں کوبچایا جس میں نوجوان لڑکیاں اور بچے تھے۔
ملک دشمنوں کا اگلا ٹارگٹ سکولوں کوتباہ کرنا تھا لیکن قوم کے اس ہیرو نے جسکی نام کے علاوہ کوئ شناخت نہیں ملک دشمنوں کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔
جب تک ایسے لوگ رہیں گے کوئ بھی وطن عزیز کو نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
ایک مدھم مسکراہٹ سکندر صاحب کے ہونٹوں پر آئ اثر ساتھ ہی دو آنسو بھی آنکھ سے ٹپکے انھوں نے آہستہ آواز میں کہا میرا گمنام ہیرو۔
***
No comments