Ak khatt Zindagi k nam by Khadija Murtaza


 سیاہ سفید روشنائی سے ، آنکھوں سے بہتے موتیوں کو

 صبر کے روزے میں لپیٹ کر، دکھ کی دھوپ میں نیلے، خشک ہوتے ہونٹوں کو تکلف کی مسکراہٹ سے سجا کر،

 آج ایک خط زندگی کے نام لکھا ہے کہ" اے زندگی

"تیری کمی  شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ میں  روز جینے کی آس میں تمہیں گزار رہی ہوں اور تم ہو کہ بس گزرتی جارہی ہو۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ میں تمہیں جینے کی آرزو کروں اور  تم"  ترس کھا کر ٹھہر جاؤ فقط کچھ پل کے لیے کہ، میں مرتی مرتی جی اٹھو۔ کچھ ساعتیں بہار کی نذر کروں اس سے پہلے کہ خزاں میرے دروازے پہ کھڑی زور زور سے دستک دیتی رہے اور میں کمر رسیدہ، لاٹھی اٹھائے، آنکھوں پہ لگے چشمے کو درست کرتے ہوئے ،بسم اللہ کہہ کر دروازہ کھول بیٹھوں۔

ازقلم: خدیجہ مرتضیٰ

No comments