Namkin Ghazal written by Khadijia Murtaza
:غزل
"نمکیں"
اِک بُلبل نے کیا اِک کام نرالا
کھودی مٹی اور بو دیا بیج محبت والا
جب نکلی کچھ شاخیں ہری ہری
تو پھر اُس نے اپنا راستہ ہی بدل ڈالا
یہ دیکھ کر پودا رونے لگا
ہار موتیوں کے پرونے لگا
بولا اگر چھوڑ جانا تھا یوں
تو پھر یہ کھیل رچایا تھا کیوں
یہ سُن کر بُلبل نے کہا اُس کو
بے شک لگایا ہے ہم نے تم کو
یہ نہیں تھا کوئی کھیل بس اِک تجربہ ہے
اور تجربے کے لیے آزمایا ہے تم کو
یہ سُن کر پودے کی خواہشوں کا وصال ہوا
اور بُلبل کو گئے پورا اِک سال ہوا
اور ہوا اِک دن یوں کہ پھر
مارے ہجر کےپودے کو بُلبل کا جمال ہوا
بُلبل بولا دیکھ تیرے لیے واپس آیا ہوں میں
تجھ کو بھول نہ پایا ہوں میں
دیکھ کے تیرا یہ دلکشی پھل
خود کو روک نہ پایا ہوں میں
یہ کہہ کر اُس نے جو توڑا اِک پھل
تو نمک تھا اُس میں حل ہی حل
بولا غُصے سے یہ کیا ہے مذاق
رکھتے ہو پھل مگر ذائقہ خراب
یہ سُن کر پودے نے دی پھر دہائی
کہا یہ نوبت تیری وجہ سے ہے آئی
تیرے ہجر میں روتی رہی میری آنکھ
جو توں توڑ گیا وہ اِس نے نبھائی
اور وفا کا تھا اِس قدر زور کہ "نمکیں"
آنسوؤں کی تاثیر اِس میں چلی آئی
آنسوؤں کی تاثیر اِس میں چلی آئی
ازقلم:خدیجہ مرتضیٰ
*************
Masha Allah
ReplyDelete