5 فروری یوم یکجہتی کشمیرضحی شبیر تڑارکھل آزاد کشمیر

 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر 

ضحی شبیر تڑارکھل آزاد کشمیر 


ایران  کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام میں جب محل میں داخل ہو رہا تھا تو اس نے  محل کے دروازے پر پرانی و باریک وردی میں پہرہ دے رہا تھابادشاہ نے اس کے قریب اپنی سواری کو  رکوایا اور ضعیف دربان سے پوچھنے لگا:

"سردی نہیں لگتی  ہے کیا.......؟" 

بوڑھے دربان نے جواب دیا : " بہت لگتی ہے حضور مگر کیا کروں، گرم وردی ہے نہیں میرے پاس... اس لیے برداشت ہی کرنا پڑتا ہے۔" 

"میں ابھی محل کے اندر جا کر   اپنا ہی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ہوں تمہیں"

دربان نے خوش ہو کر بادشاہ سلامت کو فرشی سلام  کہے اور بہت تشکر کا اظہار کیا۔لیکن جیسے ہی بادشاہ سلامت گرم محل میں داخل ہوا، دربان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھول گیا.

صبح دروازے پر اس بوڑھے دربان کی اکڑی ہوئی لاش ملی اور قریب ہی  مٹی پر اس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی ہوئی یہ  تحریر بھی

"بادشاہ سلامت،

میں کئی سالوں سے سردیوں میں اسی نازک وردی میں دربانی کر رہا تھا ۔

مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی


اس قصے کو پڑھتے ہی میرے دماغ میں 5 فروری کا دن آ گیا ہے.میرا کشمیر درد کی تصویر بن کر  نظروں میں گھومنے لگا. کشمیریوں کے لیے بادشاہ کا محل  "پاکستان" ہے.  بادشاہ سلامت عہدے پر منتخب عشروں سے چلے آنے "پاکستانی حکمران" ہیں. دربان کا  موجودہ کردار نبھانے والا  ہر "کشمیری" ہے. 


پانچ فروری "یوم یکجہتی کشمیر" ہر سال بڑے پیمانے پر دھوم دھام سے منایا جاتا ہے.  کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور اتحاد کا اظہار کرنے کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں. نعرے بازی کی جاتی ہے. آزادی مارچ کے لیے سب کو دعوت دی جاتی ہے.

سال ہا سال پانچ فروری کو پاکستانی بادشاہ سلامت   کشمیر آتے ہیں. ریاست جمو‍ں و کشمیر سے بھارتی  ظلم و بربریت کے خاتمے کا یقین دلاتے ہیں. عصمت دری سے تحفظ کی ضمانت دلاتے ہیں. غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کے لئے لفظوں کو جملوں میں پرو کر تلوار بناتے ہیں. پھر کاٹ دار لہجے سے تلوار کی تیز دھار بناتے ہیں. جب جملے  کشمیریوں کی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں تو ہر آنکھ  کشمیر کا علم جمو‍ں،سری نگر، پونچھ، گلگت، اور  لہرانے کا خواب بننے لگتی ہے.

..... ہرکشمیری دل میں یہ گونج اٹھتی ہے آزادی دور نہیں، غلامی کے شکنجے سے نکلنے کے لمحات قریب ہیں

کیوں کہ بادشاہ سلامت کے لفظوں میں درد ہوتا ہے،لہجے میں تکلیف کا عکس نمایاں ہوتا ہے، آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ دکھائی دیتا ہے

بالکل دروازے پر کھڑے ایرانی بادشاہ کی طرح رحمدلی، ہمدردی، محبت کا احساس سموئے نیک جذبات کا  منظر ہوتا ہے..... لیکن ایسا منظر ہر سال ہوتا کیوں ہے.....؟

کیوں کہ بادشاہ سلامت اپنے دربار اعلٰی سے نکل کر اس دھرتی پر قدم رکھ چکے ہوتے ہیں جس کے ذرے ذرے میں تہ خانے کے  زندان میں موجود  قیدی جیسا  درد ہے...، جس کی آزاد چلتی نظر آنے والی فضا میں غلامی کی گھٹن ہوتی ہے...، جس دھرتی کے پربت، گلیشیر، پہاڑوں، دریاؤں،میدانوں، لہلہاتے کھیتوں، بہتی آبشاروں، ندیوں و نالوں، گھنے جنگلوں، مٹی تلے دفن سانس لیتی شہداء کی جانوں، اڑاتے پرندوں، چرتے  پھڑتے جانوروں، انسانوں کے دھڑکتے دلوں، سوچوں کے بھنور میں ڈوبے دماغوں اور چلتی سانسوں کی بس ایک ہی آواز ہوتی ہے

ہے حق ہمارا................. آزادی 

ہم چھین کر لیں گے....... آزادی 

اُس پار بھی لیں گے........ آزادی 

اس پار بھی لیں گے........... آزادی 


کشمیر کی دھرتی کی فضا اور مٹی کا درد   قدم رکھتے ہی پاکستانی بادشاہ سلامت کے اندر سرائیت کر جاتا  ہے وہ درد کی تصویر بنے کشمیر کے تکلیف کے احساس  کو محسوس کرتے ہیں بلکہ ویسے جیسے ایرانی بادشاہ جب دربار سے باہر  اس دربان کے ساتھ اس کی سرد  جگہ پر  کھڑا تھا وہاں ٹھہر کر ہی وہ سردی کی شدت کو محسوس کر سکتا ہےاور اس کی تکلیف کو دیکھ سکتا تھا

ایرانی بادشاہ کی طرح بادشاہ سلامت جب پانچ فروری کو کشمیر تشریف لاتے ہیں. بلند و بالا دعوے کرتے ہیں. غلامی کے شکنجے سے رہائی کا اعلان کرتے ہیں. تو کہیں دلوں کو امید  آزادی ملتی ہے

ایک لمحے کو کشمیریوں کو روشن منزل کی امید دلاتے  ، جگمگاتے راستے کی آس بنتے اور بھارتی قابض سے رہائی دلانے کے  دعوے کرتے حکمران اگلے ہی لمحے، امیدیں صرف ایک جملے سے توڑ دیتے ہیں. جب وہ تقریر کے اختتام پر بآواز یہ  نعرہ لگاتے ہیں "کشمیر بنے گا پاکستان".


دیکھتا ہے فقط ساحل سے رزم خیر و شر تو 

کون طوفان کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو 



 سادہ لوح کشمیری جو امیدیں سے بہل جاتے ہیں. ٹوٹے دلوں کے ساتھ ہر سال کی طرح سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں 

کیا بھارت  کا قابض ہونا ہی قبضہ اور ہمارے لیے غلامی ہے.....؟

ہم نسل در نسل الگ الگ  ملکوں کے قبضہ میں جاتے جائیں گے.......؟

ریاست جموں و کشمیر کبھی واپس ازاد ریاست نہ بن پائے گی..... کیا  ریاست  کی طویل ترین تاریخ  چھوڑ  کر صوبے کی کہانی سنی اور پڑھی پڑھائی جائے گی...؟

کیا آزادی کا سورج ہماری ریاست میں طلوعِ نہ ہو سکا گا. عصمتیں لٹانے، ماؤں کی آغوشیں لگاتار اجڑنے کے بعد، کثیر تعداد میں معصوم کلیوں اور پھولوں کی قربانی کے بعد اور بہنوں کے بیوہ ہونے کے بعد بھی ہم غلام ہی غلام  رہیں گے........؟

وہی قاتل وہی منجر وہی ٹھہرے منصف بھی 

میرے اقربا کریں قتل  کا دعویٰ کس پر؟ 

کیا ہماری ریاست کی روایات، رسم و رواج، طویل ترین تاریخی قیمتی اثاثہ، عِلم، عَلم، جغرافیہ، آباؤ اجداد کی قربانیاں، شہداء کے آزاد ریاست کے لیے دیکھا  گیا خواب حتیٰ کہ سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا.......؟


 حفاظتی انتظامات کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر لائے گئے حکمرانوں کے نعروں کے بعد سوالات در سوالات کا سلسلہ سادہ لوح کشمیری کے دماغ میں چلنا شروع ہو جاتا  ہے. جو چند لمحوں کے لیے جھوٹے دلاسے سے بہل جاتے ہیں ان کے غیرت غلامی کا نعرہ سننا گوارا نہیں کر پاتی ہے. جن کی  آنکھیں جذبات سے روشن نظر آ رہی ہوتی ہیں ان میں منافقت نظر آنے  لگتی ہے....... جن چہروں  پر احساسات، نیک جذبات اور محبت کا روپ سجا نظر آتا تھا ان چہروں پر یک دم سے مکارانہ چالیں اپنا  پتہ دیتی ہیں.

5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کو ہر سال کشمیریوں سے ہمدردی  و اتحاد کا اظہار  کیا جاتا ہے، ریلیاں نکالی جاتی ہیں، آزادی مارچ کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے، شرکت کی دعوت دی جاتی ہے....... ہر سال بہت عمدگی سے حسین سر تال کے ملاپ،  سریلی دھنوں کے امتزاج اور  پرکشش آواز  سے کشمیر کے لیے نغمے تیار کیے جاتے ہیں. بھارتی مظالم کی تصاویر لگا کر دل کو چیرنے والی درد ناک ویڈیو بنا کر نشر کی جاتی ہیں....... پروگرام کا انعقاد کر کے کچھ کشمیریوں کو مہمان خصوصی بلا لیا جاتا ہے..... دس سے بارہ  طلباء کو کوئز کے لیے  بلا لیا جاتا ہے....... کچھ کھلاڑی، اداکار، بیوروکریٹ اور عہدے داران بھی وزیر اعظم کے ساتھ کشمیر میں حفاظتی انتظامات کے ساتھ بھرپور پروٹوکول میں تشریف لے جاتے ہیں...... اپنے اپنے لفظوں اور احساسات کو جذبات کا جامہ پہنا کر  عوام کو بتاتے ہیں.......

لیکن تقریر کے اختتام پر اسٹیج سے اترتے پانچ فروری  گزرنے کے بعد اور جیسے بادشاہ سلامت اپنے محل میں داخل ہوتے ہیں ان کو غلامی میں تڑپتے کشمیری پنچھی بھول جاتے ہیں..... اپنے وعدے، امیدیں اور نیک جذبات بھول جاتے ہیں... خود کی ذات نظر آتی ہے. اپنے مفادات نظر آتے ہیں ۔

گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ھماری کٹی

پھر بھی کہتے ھيں مجھ سے يہ اھل چمن يہ چمن ھے ھمارا تمہارا نھيں. 


حق خود ارادیت اور حق آزادی کی آواز کانوں میں کھٹکنے لگتی ہے. ایسی آوازیں جن زبانوں سے لگاتار گونجتی ہیں تو  ان آوازیں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور زبانوں کو کاٹ دیا جاتا ہے. جو اپنی علمی و تاریخی اثاثے کو جاننے اور محفوظ رکھنے کے لیے اڑان بھرنا چاہتے ہیں ان پنچھی کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں ان کے لیے  فضا کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے کشمیریوں کا کھلا آسمان  تنگ کر دیا جاتا ہے.  تاریخی کتابوں کی اشاعت و ترسیل پر پابندی لگا دی جاتی ہے.... اپنے مقام کا رعب دکھاتے ہوئے "الحاق" کا سبق سیکھایا جاتا ہے.


راتوں کے اندھیروں کا ہمیں خوف نہیں 

ہم جب بھی لٹے دن کے اجالے میں لٹے 


جب جسمانی ظلم چھوڑ کر ذہنی ظلم کیا جاتا ہے تو ہر کشمیری چیخ چیخ کر اپنے پر مسلط ہر حکمران سے (خواہ کسی بھی ملک سے ہو)  پوچھنا چاہتا ہے

کیا ہندو کا قابض ہونا ہی قبضہ ہے....؟

کیا شہدا کے لہو کی قیمت نسل در نسل غلامی ہے...؟

 کیا شہ رگ جس کو کہہ جاتا ہے غیروں کے شکنجے میں دیکھ کر تڑپنا عقلمندی اور مخلصی کی علامت ہے...؟

کیا حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے شہ رگ کو بچانا کی ضرورت نہیں ہے......؟

کیا یوم یکجہتی کشمیر کے دن مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بلند کرنا بے ضروری نہیں ہے.......؟ 

کہاں قرطاس پر قلم سے یہ درج ہے کہ انسانیت اور ایک امت ہونے کے ناطے ریاست کے ساتھ الحاق کرنا ہی ضروری ہے.......؟

کیا  با حیثیت مسلمان انسانیت اور  اجک امت ہونے کے ناطے قابض اور ٹکڑے میں بٹی ریاست کے  حق خودارادیت کے لیے کوشش کرتے ہوئے حق آزادی دلواتے ہوئے دوستی کا رشتہ رکھنا غلط اور ناجائز ہے........؟


کیا ہر سال موسیقی آلات کے استعمال سے دھنوں   پر تیار کیے جانے والے نغموں  اور میوزک سے اتحاد اور ساتھ کا یقین دلانا، ریاست کو آزاد کرانے کی کوشش کرنا اسلامی ملک کو زیب دیتا ہے...؟


کیا دہلی کے ایوانوں میں بیٹھے وحشی درندے  میراثی ہیں جو موسیقی سے ہمارا لگاؤ دیکھتے ہوئے ہمارے چرنوں میں آ بیٹھیں گے اور موسیقی کا گرو مانتے ہوئے ڈھول کی تھاپ پر مقبوضہ کشمیر ہمیں دان کر دیں گے.......؟

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات 

دے اور دل ان کو یا دے مجھ کو زبان اور 



کیا ہماری  غیرت  اور وقار اس بات پر راضی ہو گا کہ آزادی کا خواب چھوڑ کر الحاق کی بات کر کے شہداء کی قربانیوں کا جنازہ پڑھا ڈالو اور اپنے پرچم اور تاریخی ورثہ کو بہتے دریاؤں میں بہہ دو.... اگر دریا  کی لہریں جوش  دکھاتے ہوئے اس ورثے کو خشکی کے جزیروں پر تیز رفتاری سے آ کر چھوڑ لیں تو ان کو جلا لیں گے...؟


جس پیارے نبی ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے ہم یک جان یک قلب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.....  ان جان سے پیارے سرور دو عالم، رحمت للعالمین، وجہ تخلیق دو جہاں، اور وجہ تخلیق کائنات  حضرت محمد ﷺ  نے دھرتی سے محبت  سکھائی ہے... مکہ کے لیے روتی آنکھوں نے وطن  کی قدر بتائی ہے....

کیا ہماری قدر اور محبت ان جیسی ہے...؟


گرفتاریاں، قربانیاں، شہادتیں جو آزادی کے اصولی موقف کو لے کر دی ہیں۔ کیا  ان کا تقاضا پھر سے غلامی ہے......؟


تمام عمر نہ جس کا جواب مجھ کو ملا 

تمام عمر وہی اک سوال میں نے کیا 


 

وہ سبز پرچم میں لپٹ کر دفن ہونے والے۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینا فرض نہیں ہے کیا ۔۔۔۔اس دشمن اسلام کو نیست و نابود کرنا اہم نہیں وطن پاکستان سے وفاداری کے ثبوت میں ان کے پرچم میں لپٹ کر دفن ہونے والے شہداء کے لہو کے بدلے ان کی دھرتی کو  قابض رکھا جائے یہ  غداری اور ظلم نہ ہو گا؟

جو لٹ گئے، مرتے ہیں، سسکتے

 ہیں مگر نہ جھکے ہیں، نہ بکے ہیں، نہ اپنے مقصد سے ہٹے ہیں، نہ جن کے جذبے سرد پڑے ہیں، نہ جن کے  ولولے میں کمی آئی ہے............

کیا ان کشمیریوں کی آزادی پر اپنے مفادات کو ترجیح دے کر حق خودارادیت کے فیصلے کو خود غرضی کے بھینٹ چڑھا دینا حکمرانوں کا فرعون ہونے کی دہائی نہیں دیتا......؟



مودی سرکار کے پاپ کا گھڑا بھرنے سے ظلم کا لاوا پھٹے گا یہ لاوا اگر مودی کو تباہ و برباد کرے گا تو کیا یہ لاوا منافقت کے لبادے اوڑھے اپنائیت کی آڑ میں بے گانوں جیسے ظلم کرنے والوں کو چھوڑ دے گا...؟


کیا دہلی سامراج میں گونجنے والی  "ہم کشمیر پر قبضہ کریں گے"، "آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا جا رہا ہے"، "کشمیر کو ہم نہیں چھوڑیں گے"...... جیسی آوازیں اگر  بھارت کے ظلم کی مثال ہیں تو کیا اسلام آباد کے ایوانوں میں کشمیر بنے گا پاکستان کی آواز بھی ظلم نہیں ہے. انداز اگرچہ مختلف ہے  کیا  بات ایک ہی  ہے... ؟

جانا پڑا رقیب کے در پر بصد نیاز

نازاں بہت تھے جس پہ وہ اک بات بھی گئی

ان کے ساتھ ہاتھ ملانا  غضب ہوا

اس دوستی میں عزت و سادات بھی گئی

No comments