رسموں رواجوں کی ماری _عائشہ علی
رسموں رواجوں کی ماری
عائشہ علی
بے رحمی کی آگ لگی تھی
میرا وجود جھلس رہا تھا
میرے اپنے تماش بین تھے
ہر آنکھ میں بے اعتباری تھی
کچھ ہنس رہے تھے کچھ رو رہے تھے
کچھ میرا غم دیکھ کر تڑپ رہے تھے
کچھ اپنی دھن میں مست مگن
مجھے بے دردی سے نچا رہے تھے
مجھے سرخ کفن پہنایا جا رہا تھا
سارے خواب دفنائے جا رہے تھے
میری بےبسی سجائی جا رہی تھی
میری خاموشی کو دلہن بنا رہے تھے
عجیب وقت تھا عجیب سماں تھا
زہر کا گھونٹ تھا پلایا جا رہا تھا
میری زندگی مجھے سے روٹھ رہی تھی
میری زندگی مجھ سے چھینی جا رہی تھی
زندگی کے گھنگروں بڑی بے دردی سے
مجھےنئے سُر پہ نچائے جا رہے تھے
میں رنگین خواب دیکھنی والی لڑکی
رسموں رواجوں میں ماری جا رہی تھی
*****************
No comments