“ سری نگر جیل سے فرار کی کہانی...... مقبول بٹ شہید “ ازضحی شبیر تڑارکھل آزاد کشمیر
سری نگر جیل سے فرار کی کہانی
مقبول بٹ شہید
ضحی شبیر تڑارکھل آزاد کشمیر
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے گبھرایا نہیں کرتے
آزادی جس کا حق انسان کو اللہ عزوجل کی طرف سے دنیا میں آنے کے ساتھ دے دیا جاتا ہے.. انسان کا پیدائشی حق ازادی ھوتا ھے.. انسان بھی آزاد فضاؤں میں زندگی گزارنے کی طبیعت رکھتا ہے.. لیکن جب کبھی انسان کی اس آزادی کو غلامی کے بھینٹ چڑھا دیا جائے اور آزادی کسی قوم سے چھین لی جائے اس پر غلامی مسلط کی جائے تو پھر ازادی کے پروانے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے جوش و جذبہ سے سر اٹھاتے ہیں.. اس آزادی کے سفر میں آزادی کے پروانے کی اللہ تعالیٰ بھی سچی لگن اور جذبہ ایمانی دیکھ کر مدد کرتے ھیں. ازادی کی اہمیت صرف غلام قوم ہی اچھے سے سمجھ پاتی ھے. پھر آزادی حاصل کرنے کے لیے راہ میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے منزل ہی تک پہنچانا کی تڑپ ہوتی ہے.. اس بات کا اندازہ "سری نگر جیل سے فرار کی کہانی" از قلم مقبول بٹ شہید کو پڑھنے کے بعد ہوا .. اس کہانی کو کتاب کی شکل میں پیش کرنے کا اعزاز سر سعید اسعد کے حصے میں آیا . اس کہانی میں مقبول بٹ شہید اور ان کے ساتھیوں کی جیل سے بھاگنے کی پر خطر کہانی اور مشکات سے نمٹنے کے بعد ایف آئی یو کے حسن سلوک کا بھی تذکرہ ہے.. مقبول بٹ شہید نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 1965 میں محاذ راے شماری کے نام سے بنیاد رکھی. بعد میں اس کی ایک خفیہ مسلح ونگ این ایل ایف کی بنیاد دوست کے ساتھ رکھی جس کا مقصد نوجوانوں کو ترتیب یافتہ کر کے قابض بھارتی فوج کے خلاف تیار کیا جائے گا. 1966 میں مقبول بٹ دوستوں کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کے بعد تین ماہ تک خفیہ منصوبہ بندی کرتے رہے پھر گرفتار ھو گے.. دو سال تک ان کو سری نگر کی جیل میں قید رکھا گیا لیکن جیل کی سلاخیں بھی ان قیدیوں، جو شاھین کی مانند پرواز کے جنون میں مبتلا تھے،، کی ہمت کو شکستہ نہ کر سکی. دوسال جیل میں رہنے کے دوران ساتھیوں کے ساتھ مل کر مقبول بٹ راہ فرار کی تلاش میں رہے اور منصوبہ بندی کرتے رہے ازادی کے سفر میں ساتھی میر محمد نے بہترین کام سر انجام دیا غلام یسین بھی ساتھ رہے. باقی لوگوں نے حوصلے پست کر لیے..
محمد میر اور مقبول بٹ کو 1968 میں سترہ تاریخ کو سزائے موت سنا دی گئی.
جو ازادی کے پروانے پہلے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے اب منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا تھا.مقبول بٹ کے وکیل نے ان کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا مشورہ دیا اور ان کو ریکارڈ مہیا کیا..
سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد مقبول بٹ اور میر محمد کو کوٹھڑی میں بند کر دیا اور حفاظتی اقدامات کو سخت کر دیا کڑی نگرانی کی جانے لگی مگر نگرانی انتظامات اور مشکلات کبھی ازادی کے متوالوں کو روک سکی جو یہ سختی ان کو سزائے موت تک کیسے پہنچا سکتی ھے. جب سفر آزادی میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہو جائیں تو حوصلے پست نہیں ہو سکتے ہیں. مقبول بٹ شہید نے کوٹھڑی نمبر ایک کے سیم زدہ فرش پر بیٹھ کر 300 صفحات کی اپیل تیار کی اور اپیل دائر کرنے کے ساتھ اکتوبر میں فرار ہونے کا بندوبست کرنا شروع کیا...
میں جھکا نہیں بکا نہیں کہیں چھپ چھپا کر کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر.
میر محمد اور مقبول بٹ اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آغاز کر دیا موسم سرما اس پلان کی ترقی کے لیے بہت زبردست ٹھہرا. موسم کی تبدیلی اور شدید سردی کے باعث اعلی حکام سے گزارش کی گئی کہ ان کو بہتر سولہت دی جائے یا فی الوقت پرانے بستر اور کمبل مہیا کیے جائیں تاکہ سیم زدہ دیواروں پر ٹانک کر سردی سے بچا جاے. کوٹھڑی کی دیوار پر ڈھائی فٹ تک پرانے کمبل لگانے کی اجازت مل گئی پھر ان نے موقع کی مناسبت سے دروازہ پر بھی اجازت لے کر کمبل لگا دیا.. تا کہ سردی سے بچا جا سکے. مگر ادھر کس کو کیا معلوم تھا کہ ازادی کے پروانوں کو سردی کیسے متاثر سکتی ہے جن نے بلند و بالا برف کی پہاڑیوں کو سر کر کے بغیر آزاد سر زمین میں قدم رکھنا ہے
لو نظر آئے گی تو ظلم کے انگاروں کی
اور آہٹ جو سنی آہنی جھنکاروں کی
بیڑیاں توڑ دو دیوار گرا دو یارو
آس بھی توڑ دو زندان کو جلا دو یارو
یوں کمبل لگانے کے بعد میر محمد نے نقب لگانے کا آغاز کیا اور آغاز کے وقت سے فرار تک 6 انچ لمبی کیل اور لوہے کی ایک سلاخ جسکو کانگڑی سے حاصل کیا گیا تھا بطور ہتھیار استعمال کیا گیا.. حیرت کی انتہا ہے کیسے دو ہتھیاروں سے دیواروں سے سرنگ تیار کی جاتی ہے ایک ماہ تک.. اس ایک ماہ میں سرنگ کے لیے فقط دس منٹ میسر آتے کہ کام جاری رکھا جائے . اس پندرہ منٹ میں مقبول بٹ گیٹ کے پاس اخبار کے مطالعے میں مشغولیت دیکھاتے ہوئے پہرا داروں پر نظر رکھتے اور میر محمد کیل سے دیوار سے مٹی ہٹاتا پھر سمنٹ پلستر وغیرہ کو آہستہ آہستہ ہٹاتا اینٹ تک پہنچ گے اور مٹی اور پلستر کو چٹائی کے نیچے بچھا دیتے.. اپنی کوٹھڑی میں سوراخ بنانے میں کامیاب ہو گئے پہرے داروں کو شک نہ ہو سکے کمبل دیواروں پر موجود ھونے کی وجہ سے.. پھر آزادی کے دیوانوں نے کوٹھڑی نمبر ایک سے راستے بنانے کے بعد کوٹھڑی نمبر 2 جو پرانی اشیا سے بھری ہوئی تھی میں داخل ھونے کے بعد اس میں شدید مشکل سے سرنگ بنانے کے بعد راہ فرار حاصل کی. اس سفر میں ڈر ، خوف اور خطرہ تو ہر قدم پر موجود رہے ان کی کہانی پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا. مگر اللہ نے ہمت، سچی لگن اور آزادی کی تڑپ کے جذبے سے سر شار ان مجاہدین کی ھر قدم پر مدد کا انتظام فرما دیا. سرنگ کے بعد رمضان کے مہینے میں دسمبر میں سحری کے وقت سری نگر کی جیل سے اپنی تیار کردہ سرنگ سے کچھ ضروری سامان خوراک، قرآن پاک اپنی تیار شدہ فائل کے ساتھ مقبول بٹ شہید میر محمد، اور غلام یسین نے فرار حاصل کی. غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کر کے فضا آزادی میں قدم رکھنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کیا. سفر، خوراک، ندی نالوں اور جھیلوں کی سختی کا سفر سب مشکلات بھرا تو تھا مگر قدرت خداوندی نے لوگوں کے دلوں میں مجاہدین کے لیے بہت محبت ڈال رکھی تھی.
قیدی شاہین اڑا سب پرندوں کو یہ بتلا کر
اڑو سلاخوں سے ٹکرا کر خون میں نہا کر.
لوگوں نے مجاہدین کو پناہ دی بھرپور مہمان نوازی کی.. بےپناہ محبت کا اظہارِ کر کے ان کی مدد کی بہت جگہ پر ان کو بھارتی فوج سے بچایا کیوں کہ مجاہدین کی جیل سے فرار نے سری نگر میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا.. جگہ جگہ ناکہ بندی کے ساتھ ہر جگہ کی تلاشی لی جا رہی تھی سی آئی ڈی بھی تشریف لا چکی تھی.
مگر "جسے اللہ رکھے اسے کون ہے جو چکھے" .. یہ بلند ہمت وحوصلے کے پیکر مجاہدین 14 ہزار فٹ کی بلند وبالا برفانی چوٹیوں کو عبور کر کے آزاد کشمیر پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تھے.. مگر ان کو یہاں بھارتی کارندے، ان کے ایجنٹ قرار دے کر "ایف آئی یو" نے بد نام قلعہ " بلیک فورٹ" میں قید کرنے کے بعد فائل اپیل بھی ضبط کر دی واپس نہ لوٹایا. جو ابھی تک ان کے پاس ہے... مقبول بٹ کی "سری نگر جیل سے فرار" تک کی کہانی میں ایک جملہ دل و دماغ میں نشتر تک چبھ گیا...
"کشمیر میں پہنچنے کے بعد آزادی کی بہت خوشی تھی مگر بلیک فورٹ میں جانے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور تھا دشمن کون ہے اور دوست کون ہے.."
آزادی کی طلب میں سخت ترین قمیت اتارنی پڑی بعد ازاں واپس مقبوضہ کشمیر میں واپسی کے بعد مقبول بٹ کو پھانسی دے دی گئی....
کس قدر اونچا تھا میں سولی پر چڑھ جانے کے بعد
ظالموں کے سر کو چھو رہے تھے میرے پاؤں
ان کی لاش کو بھی واپس نہیں کیا گیا جیل میں ہی دفن ہے...
سولی پر چڑھتے ہوئے ان کے الفاظ تھے "کشمیر ضرور آزاد ھو گا"
ان شا اللہ تبارک کشمیر کو آزادی کا سورج نصیب ہو گا.
شہ رگ ہوں نہ اٹوٹ انگ ھوں
میں تو اپنی مٹی کے سنگ ھوں
ہے مجھے بھی حاصل اپنے وجود کا حق
جو مانو تو امن نا مانو تو جنگ ہوں
***************
No comments