میں بھی انسان ہوں_ اقصٰی ممتاز
میں بھی انسان ہوں
اقصٰی ممتاز
روزشانے اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی. اس کا تعلق غریب گھرانے سے تھا. مگر پھر بھی اس کے ماں باپ نے اسے بہت نازوں سے پالا. اس کی ہر خواہش کو پورا کیااور اسے پڑھایا لکھایا بھی. روشانے بھی ان کی خدمت میں کوئی کثر نہ چھوڑتی وہ ایک سلجھی ہوئی باوقار اور خوبصورت لڑکی تھی. روشانے کے والد نے جیسے تیسے کر کے اسے انٹر کروایا. ابھی انٹر کا رزلٹ نہیں آیا تھا تو وہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی کاموں میں. گرمیوں کے دن تھے روشانے فجر کی نماز کے لیے جاگی اس نے نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور رونے لگی کہ مالک میں نے تجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگا بس اتنی سی التجا ہے میرے ماں باپ کو ہمیشہ سلامت رکھنا ان کی عزت و آبرو میں کبھی کمی نہ آنے دینا ﷲ جی اس نے بڑے پیار سے پکارا آپ تو جانتے ہیں مجھے پڑھنے کا کتنا شوق ہے میں پڑھ لکھ کر اپنے بابا کا ساتھ دینا چاہتی ہوں مگر ﷲ جی میں آپ کی ہر رضا میں راضی ہوں بس آپ وہ کریں جس میں میری اور میرے والدین کی بھلائی ہو. آمین کہ کر وہ اٹھی اور قرآن پاک اٹھا لائی اور تلاوت کرنے لگی جب اس نے سورۃ المنشرح کی آیت پڑھی ان معالعسر یسری بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اس کی آنکھ سے ایک آنسو چھلک پڑا اس آیت نے اسے یقین دلا دیا کہ اب بہت جلد آسانیاں ان کے گھر آئیں گی اور اس کی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی. قرآن پڑھ کر وہ اپنے باغیچے میں آئی جو تھا تو بہت چھوٹا مگر نہایت خوبصورت اور رنگ برنگ کے پھولوں سے بھرا ہوا وہی تو اس کے دوست تھے. اس نے انہیں سلام کیا اور حال پوچھ کر پانی دینے لگی اور کہا دعا کرنا آج میرا رزلٹ آ جائے اور میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہو جاؤں. اچھی طرح پانی دے کر وہ کچن میں گئی ناشتا بنانے اچانک سے اسے روشانے روشانے کی آواز سنائی دی وہ ڈور کر باہر گئی دیکھا بابا کے ہاتھ میں اخبار تھا کہنے لگی کیا ہوا بابا جان دیکھو روشانے اس میں تمھاری تصویر آئی ہے لگتا ہے کوئی بڑا انعام لگا ہے لائیں مجھے دکھائیں یہ دیکھو بابا بابا امی امی میرا رزلٹ آگیا ہے اور میں نے بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی ہے مجھے سکلڑ شپ بھی ملا وہ کیا ہوتا ہے بیٹی بابا مطلب میں آگے مفت تعلیم حاصل کر سکتی ہوں وہ خوش تھی بہت خوش جیسے اس کی ساری دعائیں آج ہی قبول ہو گئی ہوں اس نے شکر ادا کیا. اس کے بابا نے کہا بیٹا میں جانتا ہوں تمہیں ڈاکٹر بننے شوق ہے مگر میں بیمار رہتا ہوں میں چاہتا ہوں اپنے ہاتھوں سے تمہیں رخصت کر دوں تاکہ میرے مرنے کے بعد تمہیں در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں روشانے جیسے تڑپ کر بولی بابا جان آپ ایسا نہ کہیں آپ کا حکم میرے سر آنکھوں پر ﷲ جی آپ کا سایہ سلامت رکھے ہم پر امین ایک لمحے کو جیسے اس کی ساری خوشی ماند پر گئی مگر وہ صابر بیٹی تھی اپنے ماں باپ کی. وہ راضی تھی ہر اس بات سے جس میں اس کے مالک کی رضا تھی. کچھ دنوں بعد اس کے رشتے آنے لگے وہ پسند تو آ جاتی سب کو مگر بات وہاں آکر ختم ہوجاتی جب وہ لوگ جہیز کی ڈیمانڈ کرتے اور کھا پی کر چلے جاتے یہ دیکھ کر اسے بہت تکلیف ہوتی وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس کے بوڑھے ماں باپ پر کیا بیتی ہو گی. روشانے کی ماں آج کچھ لوگ آ رہے ہیں چائے کا انتظام کر لینا میں سامان لا دوں گا روشانے جو کچن میں کھڑی سن رہی تھی آج پھر سے اسے لوگوں کے سامنے نمائش بنانا تھا ان بے حس اور بے احساس لوگوں کے سامنے جن کے لیے غریب ہونا ایک عیب ہے جسے سب چھوڑ دیتے ہیں. مگر وہ چپ تھی اپنے ماں باپ کی خوشی کی خاطر. وہ بے دلی سے تیار ہوئی مگر اس قدر حسین لگ رہی تھی جیسے نازک کلی وہ مہمانوں کے سامنے گئی انہوں نے اسے پسند کر لیا اور کوئی خاص ڈیمانڈ نہ کی جہیز کی اس طرح رشتہ طے ہو گیا اور دو ماہ تک شادی کی تاریخ بھی طے کر لی گئی. روزشانے آج خوش تھی کیونکہ اس کے ماں باپ کے چہرے پر اطمینان اور ڈھیروں خوشیاں تھیں. جیسے تیسے کر کے روشانے کا جہیز بھی تیار ہوگیا اور شادی کا دن بھی آن پہنچا سب بہت خوش تھے وہ بھی خوش رہنے کی کوشش کر رہی تھی. دلہن بنے وہ بہت ہی خوبصورت کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی. اچانک سے کچھ آوازیں سنائی دی جیسے کوئی کہ رہا ہو یہ ظلم مت کرو میری بیٹی کی بارات واپس نہ لے کر جاؤ میں مر جاؤں گا تم لوگوں کو خدا کا واسطہ یہ آواز کسی اور کی نہیں اس کے بابا کی تھی جو باراتیوں کی منت کر رہے تھے کیونکہ اچانک سے عین موقع پر انہوں نے شرط رکھی یہ نکاح تب ہی ہو گا جب سلامی میں موٹر سائیکل دی جائے گی. جو روشانے کے بابا پوری نہیں کر سکتے تھے انہوں نے بہت ہی مشکل سے اس کا جہیز تیار کیا تھا. ایک باپ کی مجبوری کوئی نہیں سمجھ سکتا. بس کر دیں آپ لوگ کیا مجھ سے نکاح کریں گے میں انکار کرتی ہوں کہ مجھے نہیں کرنا یہ نکاح سب ایک دم خاموش ہوگئے بیٹی یہ کیا کہ رہی ہو بابا جان آپ کو اپنی بیٹی پر بھروسہ ہے نا تو آج مجھے بولنے دیں. کیا ہم لڑکیاں بکاؤ مال ہیں جن کی یہ لوگ قیمت لگاتے ہیں ہم بھی آخر انسان ہیں ہمارے بھی سینوں میں دل ہے ہمارے بھی ارمان ہوتے ہیں کیا ہوا جو ہم غریب گھرانے میں پیدا ہو گئی اس کا یہ مطلب تو نہیں ہم انسان نہیں کیا ہمیں خوش ہونے کا حق نہیں. تم لوگ بے حس ہو اگر تمھاری بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہو تو کیسا لگے گا اگر ان کی بھی بارات ایسے واپس جائے تو تم لوگ بھی ایسے ہی گرگراؤ گے جیسے آج میرے بابا گرگرا رہے ہیں. سب لوگ خاموشی سے روشانے کے درد بھرے الفاظ سن رہے تھے بہت سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے. وہ خود بھی تو رو رہی تھی اس کا دل کٹ رہا تھا اپنے بابا کی حالت دیکھ کر مگر وہ خاموش نہ ہوئی اس کے بابا حیران تھے اس کی یہ سب باتیں سن کر کہ کب ان کی بیٹی اتنی سمجھدار ہو گئی. جب وہ سب کہ کر خاموش ہوئی تو اس کے کانوں میں گرجدار آواز میں کچھ سنائی دیا مہربانی کر کے آپ لوگ جا سکتے ہیں ہمیں آپ سے رشتہ نہیں جوڑنا ہماری بیٹی کوئی بکاؤ مال نہیں جو آپ جیسے سوداگروں کے ہاتھوں دے دوں کیا ہوا جو میں غریب ہوں ہو گی شادی میری بیٹی کی ضرور ہو گی مگر وہاں جنہیں صرف میری بیٹی چاہیے ہو گی. اور جو اس کے نصیب کا ہو گا وہ بھی اسے ملے گا. سب لوگ چلے گئے تو روشانے کے بابا نے اسے گلے لگایا وہ ان سے معافی مانگنے لگی آج میں بول پڑی بابا جان کیوں کہ مجھ سے آپ کی تذلیل برداشت نہیں ہوئی میں نے تو ہمیشہ آپ کی عزت کی دعا کی کیسے آپ کی تذلیل ہونے دیتی. میری بیٹی فخر ہے مجھے تم پر میری بھی آنکھیں کھولی تم نے. میں نے تمہیں پڑھنے نہیں دیا مجھے معاف کرنا مگر اب تم پڑھوں گی ڈاکٹر بنوں گی پھر تمھاری شادی میں کروں گا سی ایسے لڑکے سے جسے صرف تم چاہیے ہو گی انشاﷲ. یہ سن کر روشانے زور زور سے رونے لگی اور کافی دیر تک بابا کے گلے لگی رہی. اور پھر بابا نے اسے بہت سا پیار کیا. اب وہ کچھ بہتر تھی آج اسے اپنی دعاؤں کی قبولیت کا یقین ہو گیا تھا واقعی ﷲ نے اس کی ساری دعاؤں پر کن کہ دیا تھا آج وہ بہت مطمئن تھی پر سکون جیسے اس کی ساری خواہشات پوری ہو گئی ہو وہ ﷲ کا شکر ادا کر کے سو گئ اور آنے والی صبح کی خوشی میں. واقعی ہم لڑکیاں بھی انسان ہیں ہمارے بھی جزبات ہیں کتنی ہی لڑکیاں جہیز کے نام پر ماں باپ کی دہلیز پر ہی بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتیں ہیں کوئی بھی نہیں جو ان کے خلاف آواز اٹھائے اور اس جہیز کی لعنت کو ختم کرے ہمیں ہی قدم بڑھانا ہو گا اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے لیے.
No comments