پری چہرہ لوگ ازقلم میمونہ ملک


عنوان:پری چہرہ لوگ  

نام:میمونہ ملک(ماڈل ٹاؤن اسلام آباد)

نومبر کی اس ٹھنڈی شام میں سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی جانب لوٹ رہے تھے،پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف جا رہے تھے،وہ اسکارف اور جیکٹ میں ملبوس کتاب اور قلم گود میں رکھے باغ کے ایک کونے میں بینچ پر بیٹھی تھی،پَت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا تھا،ہر شجر اداس تھا،فضا میں عجیب سی خاموشی محسوس ہو رہی تھی،اس خاموشی میں ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ ذرد اور نارنجی پتے گِر کر منظر کو حسین بنا رہے تھے،ان پتوں کے گرنے سے عجیب سی آواز پیدا ہو رہی تھی جو باغ کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی،یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت دھیمی سی آواز میں سرگوشی کر رہا ہو ۔اس کے بالکل سامنے باغ کے دوسرے کونے میں ایک جھولا لگا تھا جوکہ ہوا لگنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ جھول رہا تھا، وہ گم صُم سے انداز میں سامنے لگے جھولے کو بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھی, تب ہی اس کی نظروں میں کوئی منظر گھوما اور وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھو گئی۔

"بابا۔۔۔۔مجھے جھولا جھولنا ہے۔۔۔۔"خوبصورت سی بچی بڑے لاڈ سے اپنے باپ سے مخاطب تھی۔۔۔وہ جانتی تھی اس کے بابا اس کی بات کو کبھی نہیں ٹالیں گے،وہ ہفتے میں ایک دفعہ اپنے بابا کہ ساتھ اس باغ میں ضرور آیا کرتی تھی،اور اسکے بابا اسکو  ہر دفعہ اس جھولے پر بٹھایا کرتے تھے،لیکن اب اس کے بابا کو گزرے کئی برس بیت چکے تھے،جب تک اس کے بابا تھے تب تک اس نے صرف محبت  اور شفقت ہی دیکھی تھی لیکن بابا کے گزر جانے کے  بعد اسکو دنیا کے مکر وفریب کا علم ہوا،اس نے یہ جانا کہ انسان،انسان کو کیسے ڈستے ہیں،کیسے دنیا اپنے مطلب نکال کر اپنی راہ لے لیتی ہے''

(فلیش بیک)

عالیہ کی ماں اکیلی بہن تھی اور ان کے ماں باپ کا اننتقال ہو چکا تھا،ننھیال کی طرف سے اس کا کوئی پہلا رشتہ نہیں تھا جبکہ ددھیال کی طرف سے اس کی دو پھپو تھیں جو عالیہ سے بے انتہا پیار کرتی تھیں،عالیہ کی ماں بچپن میں ہی اسے اکیلا چھوڑ کر اس فانی دنیا سے ناطہ توڑ گئی تھی،اسکو اس کے بابا نے بہت نازوں سے پالاتھا،وہی اس کے دوست، ہم راز اور سب کچھ تھے،اس کے بابا ایک سکول میں کلرک کی جاب کرتے تھے۔عالیہ اپنی پھپیوں کی بھی راج دلاری تھی،چونکہ وہ ان کے اکلوتے بھائی کی اکلوتی اولاد تھی اسلئے وہ دونوں بھی عالیہ سے بہت پیار کرتی تھیں اور جب بھی آتیں عالیہ کیلئے تحائف  لے کر آتیں اور عید وغیرہ پر بھی اس کے لئے کپڑے،جوتے اور چوڑیاں بھیجواتیں۔دونوں پھپیوں کی شادی ایک ہی گھر میں دو بھائیوں سے ہوئی تھی۔بڑی پھپو کی ایک بیٹی علینہ تھی جو ابھی میٹرک کے امتحانات دے رہی تھی اور چھوٹی پھپو کا ایک بیٹا عادل جوکہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔

اپریل کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور بہار کی آمد آمد تھی۔عالیہ کچھ ہی روز پہلے انٹر کے امتحانات دے کر فارغ ہوئی تھی اور اب چھٹیاں گھر میں بابا کے ساتھ گزار رہی تھی کہ انہی دنوں اچانک ہی اس کے بابا کی طبیعت خراب ہونے لگی ، وہ جب بھی اپنے بابا سے طبیعت کی خرابی کا پوچھتی تو وہ بول دیتے کہ بس موسم تبدیل ہونے کا اثر ہے اور کچھ نہیں لیکن عالیہ کی چَھٹی حِس کچھ اور ہی بتا رہی تھی، بابا کے ناں ناں کرنے کے باوجود وہ زور زبردستی کر کے ان کو ہاسپٹل لے کر گئی،ٹیسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ اس کے بابا کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں جوکہ آخری سٹیج پر ہے۔یہ سنتے ہی عالیہ کے حواس مفلوج ہونے لگے تھے،آنکھیں تھیں کہ بہنے کو بے تاب،کب موقع ملے اور وہ چھلک پڑیں، لیکن وہ اپنے بابا کے سامنے کمزور ہو کر ان کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اسلئے دل پر جبر کر کے سہتی رہی۔ڈاکٹر نے ادوایات دیں اور سختی سے تلقین کی کہ ان ادوایات کو وقت پر لینا ہے کیونکہ آپ کے بابا کی جان خطرے میں ہے۔

گھر پہنچتے پہنچتے ان کو شام ہو چکی تھی۔گھر آکر اس نے سب سے پہلے بابا کو کھانا کھلا کر دوا دی جو کہ وہ ہسپتال کے میڈیکل سٹور سے ہی لے کر آئی تھی اور کافی دیر بابا کے پاس بیٹھی ان کا سر سہلاتی رہی،تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کمرے میں اس کے بابا کی بھاری سانسوں کی آواز گونجنے لگی ،وہ سو چکے تھے۔عالیہ آہستگی کہ ساتھ وہاں سے اٹھی تاکہ بابا کی نیند نہ خراب ہو اور اپنے کمرے میں آکر سب سے پہلے وضو کیا اور مغرب کی نماز ادا کر کےدعا کیلئے ہاتھ اٹھا لیئے اور اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کر بابا کی صحت یابی کی دعا کرنے لگی،بابا کے علاوہ یہی ایک جگہ تھی جہاں وہ اپنا درد بیان کر سکتی تھی،جہاں آنسو بہا سکتی تھی،جہاں گڑگڑا سکتی تھی اور یہی وہ ایک جگہ تھی جہاں سے وہ کبھی ناامید نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا رب نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے،وہ جانتی تھی کہ کوئی فریاد ایسی نہیں جو یہاں سے بھر نہ آئے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کی کب کون سی آزمائش اس کے لئے لکھ دی گئی ہے۔۔۔؟؟اپنے آنسو پونچھ کر وہ دعا کے لئے اٹھائے گئے ہاتھ چہرے پر پھیرتی اٹھی تھی اور دوبارہ بابا کے سرہانے جا کر بیٹھ گئی کیونکہ وہ ایک پل بھی اب اپنے بابا کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔اس نے ان کا بہت خیال رکھنا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جو مرض ان کو لگ چکا ہے وہ اب ختم نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھی اس کو اس بات پر مکمل یقین تھا کہ اگر اللّہ نے چاہا تو اس کےبابا کچھ زیادہ روز جی سکتے ہیں،اس کا رب اسکو تنہا نہیں چھوڑے گا۔

ایک ہفتہ گزرا تھا کہ بابا کی طبیعت بگڑنے لگی، عالیہ نے اپنی دونوں پھپیوں کو بھی کال کر کے بلا لیا۔دونوں پھپیاں شام کو ہی پہنچ چکی تھیں،اسی رات اس کے بابا کی طبیعت مزید بگڑ گئی ،ایمرجنسی میں ہاسپٹل لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے،ڈاکٹرز نے جواب دے دیا اور کہا کہ ان کیلئے بس اب دعا ہی کی جاسکتی ہے۔لیکن عالیہ نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے بابا کی ہمت بڑھاتی رہی۔اس کے بابا کو بس عالیہ کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ ان کے گزر جانے کے بعد عالیہ کا کیا ہوگا،وہ بالکل اکیلی ہو جائے گی۔وہ پوری رات عالیہ نے اپنے بابا کے سرہانے جاگتے گزاری ۔یہاں تک کہ فجر کی اذانوں کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی۔وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں نماز پڑھنے کیلئے چلی گئ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ واپس آ کراپنے بابا کو زندہ نہیں دیکھ سکے گی۔نماز سے فارغ ہوکر وہ کچھ دیر آرام کیلئے لیٹ گئی،ساری رات جاگنے کیوجہ سے اسکی آنکھیں اور سر دکھنے لگا تھا۔

صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس کو اپنے گھر میں شور سا محسوس ہوا،عالیہ کے ذہن میں فوراََ جھماکہ ہوا اور وہ اٹھ کر باہر کی طرف بھاگی۔باہر پہنچ کر جو اس کو دیکھنے کو ملا اس سے عالیہ کی روح تک کانپ گئی تھی،اس کے بابا کی میت سامنے پڑی تھی اور سب رشتہ دار پاس رو رہے تھے،چند اک لڑکیاں میت کے گِرد بیٹھی سپارے پڑھ رہی تھی۔عالیہ بھاگ کر اپنے بابا کی میت سے لپٹ گئی تھی اور سسکیاں لے کر رونے لگی،لمحے سرکتے گئے اور اس کے بابا کی تدفین کا وقت آ پہنچا۔ کچھ آدمی آئے جو کہ رشتہ داروں میں سے ہی تھے اور ان کی میت کو اٹھا کر لے گئے،آج عالیہ کے بابا اس کو بالکل اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

چار دن بعد اس کے بابا کی قل کی دعا ہوگئی تو سب رشتہ دار اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ، بس دونوں پھپیاں ادھر ہی رہ گئیں،ان تین چار دنوں میں ہی عالیہ بالکل تھکی تھکی دکھائی دینے لگی۔بابا کے بعد وہ خود کو بہت کمزور سمجھنے لگی تھی لیکن وقت اور لوگ اس کو کتنا مضبوط بنا دیں گے یہ بات اس کے گمان میں بھی نہیں تھی۔بابا کے گزر جانے کے بعد اس کی پھپیوں کی محبت نے نفرت کی چادر اوڑھ لی،وہ دونوں اس کو اپنے ساتھ گھر لے گئیں۔عالیہ سارا سارا دن ان کے گھر کا کام کرتی اور ان کی بےعزتیاں،باتیں اور طعنے  بھی برداشت کرتی۔اسے  آگے پڑھنے کی اجازت بھی نہیں ملی۔اس نے اپنی بڑی پھپو سے آگے پڑھائی جاری رکھنے کی بات کی تو انہوں نے کٹھور لہجے میں صاف انکار کر دیا کہ جتنا پڑھ چکی ہو اتنا کافی ہے۔ویسےبھی تو ساری عمر گھر کے کام ہی کرنے ہیں تو اتنا پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ۔اس کی پھپیوں نے اس کا گھر بھی بیچ  دیا۔عالیہ کا صبر ہی تھا جو وہ یہ سب برداشت کرتی رہی۔پھپیوں کے گھر میں اس کو کچھ ماہ گزرے تھے کہ بڑی پھپو کے شوہر نے شور ڈال دیا کہ ہماری اتنی کمائی نہیں ہے کہ دوسروں کی اولاد کو بھی پالیں، فیصلہ یہ طے پایا کہ عالیہ کو دارالامان میں چھوڑ دیا جائے۔چنانچہ وہ عالیہ کو دارالامان میں چھوڑ آئے۔

وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا اور وقت کی اس رفتار نے عالیہ کو کب اتنا بڑا اور سمجھدار بنا دیا اسکو پتا ہی نہ چلا۔تین سال وہ دارالامان میں رہی اور ساتھ چھوٹی چھوٹی جابز کرتی رہی ۔جب اس کے پاس کچھ پیسے اکٹھے ہوگئے تو اس نے دارالامان چھوڑ کر ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ایک سال سے وہ اس فلیٹ میں رہ رہی تھی۔اور اس نے جاب کے ساتھ ساتھ دوبارہ سے اپنی پڑھائی بھی شروع کر دی تھی۔اب اس کے بی اے کے امتحانات ہونے والے تھے۔

پھر یوں ہوا کہ اذیتوں کی انتہا ہوگئی

پھر یوں ہوا کہ لوگوں کے نقاب اتر گئے

پھر یوں ہوا کہ اپنے بھی بیگانے ہو گئے

پھر یوں ہو کہ وہ آزمائشوں پر پوری اتری

پھر یوں ہوا کہ اس نے خود کو مضبوط کر لیا

پھر یوں ہوا کہ اس نے صبر کا دامن تھام لیا

پھر یوں ہو کہ اسکو یہ معلوم ہو گیا

اس دنیا میں رب کے سوا کوئی اپنا نہیں

پھر یوں ہوا کہ اس نے رب کو اپنا ساتھی بنا لیا

کبھی کبھی وہ یوں ہی بیٹھ کر بیتے وقت کے بارے میں سوچتی تو اس کو اس سب کا یقین ہی نہ آتا جو اس پر بیت چکا تھا،جو اسکی بہت محبت کرنے والی پھپیوں نے اس کے ساتھ کیا ۔آج بھی وہی بیتا وقت اسکو یاد آگیا تھالیکن اس کو کسی سے کوئی شکوہ نہیں تھا کیونکہ اس کے رب نے اس کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔جب کوئی بھی اس کے ساتھ نہ ہوتا تو اسکا رب اسکے ساتھ ہوتا۔وہی رب جس نے اسکو کمزور نہیں پڑے دیا اور ہر آزمائش سہہ جانے کا حوصلہ بخشا۔

اچانک ہی ایک آنسوں اسکی آنکھ سے نکل کر گال سے  پھسل کر گود میں  آ گرا تھا، اس نے فوراََ اپنے آنسوں صاف کئے اپنے دماغ سے ان سوچوں کو جھٹکا اور کاپی، قلم بنچ پر رکھ کر ننگے پاؤں خشک پتوں پر چلنا شروع کر دیا،پتوں پر چلنے کی وجہ سے پتوں کی چُرمُراہٹ اور پتوں کی دھیمی سی خوشبو جو ہوا کے ساتھ محسوس ہورہی تھی منظر کو اور زیادہ دلکش بنا رہی تھی،رات اپنے پَر پیھلا چکی تھی،وہ واپس بنچ پر آکر بیٹھی،کاپی قلم اُٹھایا اور لکھنا شروع کر دیا

‏مجھے بہت پسند ہے ۔۔۔۔

سردی کی پہلی دستک

اداس  سرسراتی ٹھنڈی ہوائیں

اداسی میں ڈوبی شامیں

پتوں کا گرنا،

سورج کی آخری جھلک

رات کی تاریکی میں

بادلوں میں چھپا چاند

اور

اس سب میں اپنے پیاروں کی یاد۔

اس نے پہلی بار خزاں کے خشک موسم کے حسین ہونے کا دل سے اقرار کیا تھا۔

اور پھر اپنی ڈائری بند کرتی قلم کوٹ کی جیب میں رکھتی وہ بیزار دل لئے وہاں سے اٹھ کر پھر سے اپنے ویران آشیانے کی جانب بڑھ گئی،جہاں تنہائیاں اس کی منتظر تھیں۔۔لیکن نہیں یہ تنہائیاں ہی تو اس کی ساتھی تھیں،جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی تھیں،شاید بہت مضبوط رشتہ بن گیا تھا ان کے مابین۔

1 comment: