سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا از قلم ماہ نور نثار احمد_شکرگڑھ
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
از قلم : ماہ نور نثار احمد_شکرگڑھ
الله پاک نے اس زمین کو یہ شرف بخشا ہے کہ اس پر اشرف المخلوقات یعنی کہ انسان کو پیدا فرمایا اور تمام انسانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اے آدم علیہ السلام کی اولاد تم آزاد پیدا کئے گئے ہو - لیکن کیا انسان آزاد ہیں اس دنیا میں ؟ یا ابھی بھی آزادی کی جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں- ایسے لوگ بھی ہیں جن کی نسلیں ناپید کرنے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے -
ایسے ممالک بھی ہیں جہاں انسان کو انسان ہونے کا بنیادی حق بھی نہیں دیا جاتا - ایسی قومیں موجود ہیں جن کے نزدیک انسانی زندگیوں کی کوئی وقعت نہیں ہے - ایسے نمرود بھی موجود ہیں جو حق کی آواز اٹھانے والے کو آگ سے زیادہ خوفناک سزا دیتے ہیں -
ایسے فرعون ابھی بھی موجود ہیں جو خود کو دوسروں کی زندگی کا رب سمجھ بیٹھے ہیں اور خود کو ہی" سب" سمجھ بیٹھے ہیں - ایک ایسا خطہ اس دنیا پر موجود ہے جیسے ابھی تک نا تو جینے کا حق دیا گیا ہے نا پھلنے پھولنے کی اجازت - وہاں کے جوان کو قید ہوتی ہے تو ماں کو پتا چل جاتا ہے کہ اس نے اپنے لخت جگر کو اب کبھی نہیں دیکھنا - ایک ایسی وادی جس کی خوبصورتی کو لکھنے بیٹھیں تو قلموں میں سیاہی نہ رہے اور جس پر ہونے والا ظلم لکھنے لگیں تو قلم کے قلم ٹوٹ جائیں مگر ظلم کی داستان مکمل نہ ہو سکے - ایک وادی جسے سمجھ نہیں آتا کہ خوبصورت ہونے کی سزا مل رہی ہے یا اکثریت کے مسلمان ہونے کی ؟ اذیت کی داستان ایسی کہ ہر دل تڑپ اٹھے ہر آنکھ اشک بار ہو جائے - جی ہاں یہ داستاں میرے کشمیر کی ہے یا میں یہ کہوں کہ یہ کہانی میرے اجڑے ہوئے گلشنِ کشمیر کی ہے جہاں کے پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی کچل ڈالا جاتا ہے جہاں کی کلیاں اس ڈر سے نہیں کھلتی کیوں کہ ان کی عصمت محفوظ نہیں ہے جہاں کے ماں باپ اب اپنے بچوں کے لئے خواب نہیں دیکھتے - جہان کے جوانوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی اجازت نہیں - جہاں کے طالب علم سکولوں میں نہیں بلکہ تحریکوں میں جاتے ہیں - صبح کے نکلے ہوئے ماں کے لال شام کو ماں کی گود میں واپس نہیں جاتے بلکہ مٹی کی گود میں سلائے جاتے ہیں - فوج تو ملک کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے ایک ملک کی پہچان ہوتی ہے لیکن ایک جابر اور ظالم ملک نے اپنے جنگلی بھیڑیوں کو وردیاں پہنا کر وادی میں داخل کروا دیا- جنہوں نے لوگوں کی آنکھیں نوچ ڈالیں , ماؤں کے بیٹوں مار ڈالے , بہنوں کے بھائی جدا کر دیئے , بیویوں کے خاوند اور بیٹوں کے سروں کے تاج اچھال ڈالے - گھروں لے گھر اجاڑ دیئے - شہروں کے شہر ویران کر دیئے - جب اتنے ظلم و ستم سے بھی کشمیریوں کا جزبہ جنوں کم نہ ہو سکا تو بھارت کے ظالم اور مسلمان دشمن حکمرانوں نے ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد صرف اور صرف کشمیر کی تباہی ہے - بھارت کی پہلی حکومتیں کانگرس ہو یا بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے آئین کے مطابق کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو نہیں چھیڑا حالانکہ ان کے ادوار میں بھی ظلم و ستم کا بازار کشمیر میں گرم رہا ہے لیکن مودی کی حکومت نے کھلے عام انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے کشمیریوں پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ روح کانپ جائے - مودی سرکار نے اپنے آئین کے آرٹیکل ٣٥اے اور ۴۷۰کو مکمل طور پر ختم کر کے کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ کر ٥اگست ۲۰١۹کو پورے کشمیر پر کرفیو نافذ کر دیا - سیاحوں کو دھوکے سے نکال کر مودی سرکار نے اپنی فوج کو کشمیر پر مسلط کر دیا - جن کا واحد مقصد کشمیریوں کو ختم کر کے وہاں پر ہندوؤں کو بسانا ہے
یہ تمام مظالم آج بھی اقوام متحدہ کے ایک آفس میں کہیں سیاہ الماریوں میں قید ہیں جن پر یہ دنیا کے منصف ایک نظر کرنا گوارا نہیں کرتے - لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا اگر اس کشمیر میں انگریز بستے ہوتے تو کیا یہ وادی ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی؟
ہرگز نہیں - تو کیا یہ کہنا جائز نہیں ؟ کہ کشمیر پر ظلم و ستم مسلمانوں پر ظلم ہے - تو کہاں ہیں وہ مسلمان جو بھائی بھائی تھے - جو ایک جسم کی مانند تھے - اگر کسی مسلمان کو کابل میں کانٹا چھبے تو کیا آج بھی ہر پیرو جوان بے تاب ہوتا ہے ؟ کہاں ہیں ایسے سالار جو ایک ایک لڑکی کے خون سے لکھے خط پر تڑپ اٹھیں اور وہ علاقے فتح کر لیں ؟ آخر وہ جزبہ کہاں گیا ؟ کیوں کشمیریوں کی فریاد سننے کے باوجود ملکوں کے حکمران بحرے ہو جاتے ہیں - کیوں کشمیریوں کے لئے آواز نہیں اٹھائی جاتی ؟ کیوں سارے مسلمان گونگے بن جاتے ہیں ؟
اقوام متحدہ کا ادارہ تو اس لئے بنایا گیا تھا کہ دنیا پر امن و سلامتی ہو - تو کیا کشمیر دنیا پر نہیں ہے ؟ آخر اس کی سلامتی کا ذمہ دار کون ہے ؟
بھارت ظلم کی انتہا تک آ پہنچا تو کوئی شور نہیں ان اداروں میں اور مسلمان اگر لفظ جہاد منہ سے ادا بھی کرے تو سارے قانون بول اٹھتے ہیں - سارے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں - اور جہاد کو دہشت گردی قرار دے کر روک لیتے ہیں - یہ کیسے ادارے ہیں جنہیں بھارت کی شر پسندی, بربریت اور ظلم و زیادتی نظر ہی نہیں آتی ؟ ان کی آنکھیں ایسی بند ہیں کہ کشمیر انہیں دکھائی نہیں دیتا - کان ایسے بند ہیں کہ کشمیریوں کے ماتم کی صدائیں اور مدد کی فریادیں ان تک پہنچتی ہی نہیں ہیں - دلوں پر ایسی مہریں لگی ہیں کہ کشمیریوں کا احساس نہیں ہے- لیکن جب اس دنیا پر انصاف نہیں ملتا, جب فریادیں نہیں سنی جاتیں, جب زندگی امید سے خالی ہو جائے , جب ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے اور زمین والوں میں احساس مردہ پایا جائے تو آسمان پہ سنی جاتی ہیں دعائیں اور فریادیں - خدا شاہد کہ سرکشوں کا انجام خوفناک ہوتا ہے- کوئی نمرود کوئی فرعون الله کے غضب سے بچ نہیں پایا - تو دشمن ملک اس بات کو بخوبی سمجھ لے کہ اس کے گناہوں کا بھی گڑھا ضرور بھرے گا اور کشمیر ضرور آزاد ہو گا - الله سے دعا ہے کہ وہ اسلامی ممالک کو ایسے رہنما عطا کرے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا سہارا بنیں - جو کشمیر کی ڈگمگاتی اور خون میں نہائی ہوئی کشتی کو کنارے تک پہنچا سکے - الله کشمیر کے شہیدوں کے خون سے کشمیر کے زمین سے ایسی نسل پیدا فرمائے جو کہ اپنی آزادی لے کر دم لے -
اے کشمیر!! تیری داستاں
کو یوں لکھتے ہوئے
میرے دل, آنکھوں
اور قلم کو بھی رونا آیا
مشکل ہوتی ہے
ساتھ ہر آسانی کے
تجھ پر جو شب ہے
اس کا اب تک نا سویرا آیا
واسلام
No comments