کشمیر زادی از قلم حفصہ بٹ
کشمیر زادی
از قلم حفصہ بٹ
کہیں دو بھائی رہتے تھے ۔ دونوں میں بہت پیار تھا مگر جانے کس کی نظر لگ گئ کہ دونوں میں ایک دن شدید لڑائی ہو گئ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک ساتھ نہیں رہے گے۔ ان کی ایک سوتیلی بہن تھی ۔ جو اتنی خوبصورت اور معصوم تھی کہ لوگ اسے جنت کی حور کہتے تھے ۔ حور والدین کی ساری جائیداد کی اکلوتی ورث تھی ۔ جنت کی حور نے دونوں بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا ۔ بڑے کو فکر لاحق ہو گئ کہ اگر بہن چھوٹے کے ساتھ رہتی ہے تو وہ بڑے کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دے گا ۔ اور بڑے کے ساتھ رہتی ہے تو چھوٹا محرم ہو جائے گا ۔ اب اس بات پے دونوں میں دشمنی زور پکڑ گئ۔ حور نے تنہا رہنے کا فیصلہ کیا تو دونوں بھائیوں میں جنگ شروع ہو گئ ۔ اور پھر دونوں نے سازش کی کے بہن کی شادی نہیں ہونے دیں گے تا کہ کوئی اور جائیداد میں حصہ دار نہ بن جائے ۔ بس اس دن سے بہن دو خود غرض بھائیوں کے ظلم کا شکار ہے ۔ اور ہر گزرتے لمحے میں سماج سے التجا کرتی ہے کہ مجھے بھی جینے کا حق دو ۔ میرا بھی آزادی کی کرنوں سے سامنا کروا دو ۔ صدیوں سے قید کے ظلم سہتے وہ روتی ہے ، چلاتی ہے مگر کوئی سننے والا نہیں ہے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے ۔ " وہ آتے ہیں سنگ تو مفادات کے لیے ، ہماری جانیں کچھ نہیں جہان کے لیے. "
" کشمیر ظلم کی تصویر ہے
اسکے ہر ہاتھ میں زنجیر ہے
سربراہان اندھے جہاں کے ہیں حوروں کی حرمت حقیر ہے
جس نے درد دیے ہزاروں ہیں
وہ کہتا میرا یہ کشمیر ہے
انصاف کرتے کہاں ہو؟
نہ تیرے نہ میرے ہاتھ میں زنجیر ہے
پھر کشمیر کیوں حقیر ہے
کیوں اس کے ہاتھوں میں زنجیر ہے ؟
No comments