اندھیرے سے روشنی کا سفرازقلم فریحہ مریم محمد سلیم


 اندھیرے سے روشنی کا سفر

فریحہ مریم محمد سلیم (سیالکوٹ)

 آپ اندھیرے میں ہیں اور آندھیوں کا سامنا ہے

قدم لڑھکڑاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں 

ہمت لگتا ہے کہیں اڑ گئی ہے اور جسم ہے کے بے جان سا ہو چلا ہے

اندھیرا اور آندھی مل کر کچھ اور کمزور کر رہے ہیں پر اندر کہیں دل کے خاموش کونے میں ایک امنگ سی ہے جو کہہ رہی ہو کہ آگے بڑھنا ہے'راستوں کو تلاش کرنا ہےاور منزلوں کو پا لینے کی چاہ کو تقویت سی ملتی ہے یہ نوید سن کر

پھر اٹھتے ہیں اور قدم زمین پر جماتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں 

آگے بڑھتے ہیں تو چند دیے

 دور کہیں جلتے ہوئے نظر آتے ہیں!

جیسے کسی نے وہ دیے اس غرض سے وہاں چھوڑ رکھے ہوں کہ کوئی بھٹکا،بھولا یہاں سے گزرا تو اس کی مدد کے لیے کافی ہوں گے۔

آپ ان کی طرف گامزن ہوتے ہیں!

اس نیت سے کہ وہ دیے شاید ہمیں اس راستے کی تلاش میں آسانی دے سکیں جس کی جستجو کے بعد اب اس راستے کو پا لینے کی کاوشیں ہمیں تھکن سے چور کر چکی ہیں! 

پھر راستے میں کہیں آپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ دیے اب جلنا چھوڑ گئے ہیں۔

جیسے وہ دیے اپنی رمق بھی کھو رہے ہیں اور اس احساس کے ساتھ آپ خود کو کسی صحرا میں گم ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

پھر احساس ہوتا ہے کہ نہیں ان دیوں میں کچھ رمق باقی ہے ۔

ہوا کے تیز ہونے سے وہ کچھ گبھرا گئے ہیں اور خوف کا شکار لگتے ہیں.

جس کے ساتھ آپ بھی کچھ گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور خوف سا محسوس کرتے ہیں۔

پھر اچانک ہوا کا شور تھمتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

آپ ارد گرد میں نظر دوڑاتے ہیں مگر گھپ اندھیرا آپ کو اجازت نہیں دیتا کے آپ کوئی چیز پہچان پائیں۔ 

پھر آپ ہمت کرتے ہوئے قدم اٹھاتے ہیں اور اور وہ دیے جو گھبرائے ہوئے تھے ' ان کو اپنی منزل تصور کرتے ہیں۔

اور اسے پا لینے کی جستجو میں ہیں اور آپ اس جستجو کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں۔

منزل کو حاصل کرتےہیں اور وہ دیے اٹھا لیتے ہیں۔

اب اس اندھیرا، آندھی،خوف اور طوفان کا سامنا کر چکے دیے کو ساتھ لیتے ہیں اور آپ خود جو کے اس اندھیرا،آندھی،خوف اور طوفان کا سامنا کر چکے ہیں دونوں ہی ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں 'ہمت بندھاتے ہیں اور چلتےہیں نئی شاہ راہ کی جانب جو آپ کی امنگوں کو پا لینے کے راستے دکھائے گا اور آپ کو ایسی نگری لے جائے گا جہاں آپ کو "انسان" دکھائی دیتے ہوں۔

پھر آپ کو محسوس ہوتا ہے اپنی ذات کا ہلکا پن اور آپ سوچتے ہیں کہ کیا وہ طوفان لینے آیا تھا کچھ؟

جواب آتا ہے ہاں! لینے آیا تھا کچھ اور وہ تھا 

"امتحان تمھاری ثابت قدمی کا!"

سوچ آتی ہے کہ "کیا میں تھا اس قابل کے مجھے اندھیروں میں یہ دیے تھما دیے جائیں؟ 

جواب  ملتا ہے کہ آگے بڑھو شاید یہ دیے ان خوبصورت منزلوں کی حسین نوید ہیں جن کا خواب کبھی تم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

تو خیال آتا ہے کہ رکنا نہیں چاہیے اور آپ نےقدم بڑھانا شروع کر دیے۔

چلتےچلتے کئی بار گمان ہوتا ہے کہ جیسے میں غلط ہوں یا شاید بھٹک گیا ہوں؟

پر ہربار خیال آیا کہ یہ دیے مجھے بلا مقصد نہیں تھما دیے گئے اور دیکھ تو لوں کے اگلی منزل کیسی ہے اور مجھے کن شاہ راہوں کی طرف لے کر جاتی ہے!

 راستہ کٹھن ہوتا رہا اور یہ بھی سمجھ آتی رہی کہ مشکل راستے پار کرنا کس قدر کھٹن ہے؟

خیر' چلتے رہے اور دور کہیں روشنی کا ہیولا سا دکھائ دیا۔

خوشی دیدنی ہوئی

تھکن اڑتی ہوئی محسوس ہوئی

قدموں میں تیزی بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی اور 

اس روشنی کو پالینے کی جستجو نے مانو جسم میں کوئ برقی آلہ رکھ دیا ہو،پہنچ گئے اس روشنی کو دیکھنے۔ وہ روشنی جو فرحت بخش رہی تھی اور دل جھوم رہا ہے اسےپا لینے کی امنگوں سے۔

روشنی تک پہنچے ہی تھے کہ محسوس ہوا جیسے ہر طرف سےہوا نے ایک معصومانہ حملہ کیا ہو۔

ایسا حملہ جس میں خوشگواریت و مسرت بسی ہو۔

ارد گرد نظر دوڑائی تو لگا جیسے ہر سو راشنی ہی روشنی بکھر گئ ہے اور وہ دیے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں "اچھا وقت آن پہنچا۔

جیسے اس روشنی تک پہنچنا ہی مقصود تھا اور وہ روشنی مجھے دیکھ کر یوں مسکراتی رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو:

"میری چند کرنیں کیا کرنی ہیں وہ دیکھو اک نیا شہر آباد ہے اس اندھیرے کے پار.

جاؤ پا لو اپنی منزلیں اور ڈھونڈ اپنا ٹھکانہ جو کے انعام ہے تمھارا 

اور ہم مسکرا دیے

 گامزن ہوئے اس خوبصورت منزل کی جانب جو ہمیں اب اپنا چکی ہے اور بخشتی ہے فرحت اپنے حسیں الفاظ سے،جزبات سے، محبت سے اور اپنائیت کے نئے رنگ دکھاتی ہے

روز نئی امید دکھلاتی ہے جو میری ہر امنگ کو پورا کرنے کا خوبصورت رمز رکھتی ہے۔

ان امنگوں کو جگانے میں ہر طرح سے کارآمد ثابت ہوتی ہے جو کہیں دل کی بند کھڑکیوں کو بند رہتا دیکھ دیکھ کر امنگیں توڑ چکیں تھیں۔

مجھے اپنے سنگ رکھتی ہے اور رہتی ہے میرےسنگ ایک ایسا ساتھی بن کر جو ہر مشکل میں تھام لیتی ہے اور گرنے نہیں دیتی۔ 

پکڑ لیتی ہے ہاتھ اور مسکراتےہوئے کہتی ہے" اٹھو! تم ہارنے کے لیے نہیں آئی یہاں نہ ہی آنسو بہانے کے لیے۔ نئے راستے تمھیں تلاشتے ہیں ۔ ان کی تلاش کو انعام بخشو اور کھڑی ہو جاؤ اپنے پورے جزبے کے ساتھ، نئی امنگوں کے سپنے سجاتے ہوئے اور بڑھاؤ قدم آگے کی جانب کے اب اس منزل کو پالینے کے بعد تم پیچھے نہیں مڑ سکتی۔ 

اب تم آگے بڑھو گی اور تھام لو گی ان لوگوں کو بھی جو تمھیں اٹھتا دیکھ کر اب جی اٹھے ہیں اور ساتھ جی اٹھیں ہیں ان کی امیدیں اور منزلوں تک رسائی کی چاہتیں بھی۔ اب رکنے کی گنجائش نہیں ہے اب آگے بڑھتے ہوئے، اوروں کو تھامتے ہوئے، منزلوں کی چاہ کو پالتے ہوئے اور حسیں لوگوں گی سنگت ساتھ لیے ، ان کو بھی حسیں سنگت بانٹتے ہوئے بڑھتی چلو"

No comments