نٸے دستور محبت کے ازقلم رخشندہ بیگ

نٸے دستور محبت کے 

ازقلم :رخشندہ بیگ 


یہ کون سے دستور ایجاد ہو گئے

اچکے اور لفنگے استاد ہو گئے 


محبت منانے کا اب  ویلنٹائن ڈے ہے

جذبے بھی اب محتاج اعداد ہو گئے


زمیں  سے باہر نکلتے ہی بچے

شیریں بن گئے فرہاد ہو گئے


آسماں پہ محو پرواز تھے پرندے 

انسان قفس میں ناشاد ہوگئے


زنگر پیزا کھا ،کوک شوک پی 

آج کے مجنوں فولاد ہوگئے 


جاکر ڈیٹ ،پہن کر پینٹ

مناؤ جشن کہ تم آزاد ہو گئے


زلف دراز لڑکے بوائے کٹ لڑکیاں

اس الٹ پھیر میں برباد ہو گئے


آئی وہ اٹھلاتی ہاتھ میں ڈالے ہاتھ

بولی !ممی یہ آپ کے داماد ہوگئے


شرم و حیا کی کرتے تھے جو تلقین

دقیانوسی آج وہ اجداد ہوگئے 


بوڑھی ماں ،لاٹھی ٹیکتا باپ 

اولڈ ہوم ان کے دم سے آباد ہو گئے


بریک اپ ہی بریک اپ ہیں دونوں طرف

صبح و شام کے نالا و فریاد ہو گئے 


بےبی بابا کے سانچوں میں ڈھل کر

حاکم  ماں باپ پہ اولاد ہو گئے 


کچرے پہ ملتے ہیں لاوارث بچے

کیسے یہ  عاشق جلاد ہوگئے

***********

No comments