آخر کیا لکھوں ازقلم حسن رضا مشرف القادری
آخر کیا لکھوں ؟؟؟
حسن رضا مشرف القادری
دو تین دن سے اِسی کشمکش میں ہوں کہ " ویلنٹائن ڈے " پے کیا لکھوں ، اِس معاشرے کے نام کیا پیغام دوں ؟
قرآن کی آیتوں سے حیا و حجاب کا درس دوں ........ یا فرامینِ مصطفیٰﷺ سُناؤں ، اُمہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھن کی پاک سیرت بیان کروں یا خواتینِ اسلام کی عِفّت کو موضوع بناؤں ؟؟؟
لیکن دل کو چوں کہ " قلب " کہتے ہیں ........ اور یہ بدلتا رہتا ہے ـ اِس بدلنے کی بھی وجہ ہے!
اور وہ یہ کہ ، قرآنی آیات ، احادیث ، اُسوہءِ اُمہات المومین اور حیاے سیدہ نساء العالمین فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھن اِس قوم ( مسلمان ) کے رُوبرو ہے ، ( اگرچہ بار بار بیان کرنے میں بھی حرج نہیں ) اُسی کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ کی گندی تہذیب کو لانے کی جسارت کی جاتی ہے ـ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ یہ بے باکی کہاں سے آئی ؟ کس چیز نے اتنا دلیر کر دیا کہ مسلمان آیات و احادیث کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں ؟؟؟
میرے عزیزو! وہ وجہ ہے " ماڈرن تعلیم " جی ہاں! جب یہ تعلیم ہندستان میں آئی تو اُسی وقت مفکّرین کے ہاں موضوعِ بحث بن گئی اور دُور اندیش لوگوں نے جان لیا کہ اس کے نتائج معاشرے پر اچھے ظاہر نہیں ہونے والے ـ اگرچہ اس تعلیم کا اثر مرد و عورت دونوں پر ہوا ہے لیکن میرا ✒ قلم عورتوں کی تعلیم کے گِرد ہی گھومے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں حیا بہ نسبت مردوں کے زیادہ ہوتی ہے ........... لیکن اس انگریزی تعلیم اور تہذیبِ نصاریٰ نے اسی صنفِ نازک کو ایسا بے حیا و بے باک بنا دیا کہ فاحشہ بھی شرما جائے ـ
یاد رہے! عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ ہر دَور میں مفکّرین کی فکر کا مرکز رہا ہے ـ کچھ لوگ لڑکیوں کی تعلیم کی اِس حد تک وکالت کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں کسی قید و بند کو خاطر میں نہیں لاتے ، جب کہ کچھ لوگوں کا خیال اس سے مختلف ہے ـ انھیں میں سے اکبر الٰہ آبادی ہیں جو کہتے ہیں :
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پَری نہ ہوں
اس شعر میں سید اکبر حسین الٰہ آبادی مرحوم کَہ رہے ہیں کہ : لڑکی تعلیم ضرور حاصل کرے مگر اُسے چادر و چار دیواری نصیب رہے ، ایسا نہ ہو کہ سبھا ( یعنی مجلس و محفل ) کی پَری بن کر جلوے لُٹاتی رہے ـ
اسلام میں مَردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہی نہیں فرض ہے ـ مرد کی تعلیم تو صرف ایک فردِ واحد کی تعلیم ہے لیکن عورت کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر دینا تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے ـ معاشرے کی سب سے پہلی اکائی خاندان ہے اور خاندان میں مرکزی حیثیت " ماں " کو حاصل ہے ـ ماں ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہے ـ ایسی صورتِ حال میں اس اہم ذمہ داری کو کما حقہ انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے ـ
اربابِ علم و دانش! ہمارے ہاں مشرقی عورت کا تصوّر ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ نماز روزے کی پابند ، شرم و حیا سے مزیّن ، سلیقہ شعار ، باپردہ اور خانہ نشین ہو .......... لیکن مغرب کے نزدیک عورت کی عِزّت کا معیار یہ نہیں ہے ـ مغرب میں عورت کا کردار گھر میں " خاتونِ خانہ " کا نہیں بلکہ شوخی و چنچل سے بھرپور ، زرق برق لباس پہنے کلبوں ، سینماؤں ، پارکوں اور ہوٹلوں میں ناز و ادا دکھاتی " مِس " اور " لیڈی " کا ہے ـ
اکبر الٰہ آبادی نے اپنے اشعار میں کئی جگہ اس " لیڈی " کا چہرہ دکھایا ہے ـ کلیات کے حصہ اوّل میں کہتے ہیں
جگمگاتے ہوٹلوں کا جا کے نظارہ کرو
سوپ و کاری کے مزے لو ، چھوڑ کے یخنی و آش
لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق
ہال میں ناچو کلب میں جا کے کھیلو ان سے تاش
یہ ہیں وہ خواتین جو مغربی تہذیب میں Ideal کا درجہ رکھتی ہیں ، اور مغربی تعلیم و تربیت کا اصلِ مقصد بھی ایسی بے حیا مِس اور لیڈی ہے جو پبلک میں جا کر تنی رہے ، بے شرم و بے حیا و بے باک ہو اور مَردوں کے ساتھ اختلاط ( ملنا جُلنا ) اپنے لیے باعثِ فخر سمجھے ـ انھی ماڈرن زدہ اور فرنگی ماحول میں تعلیم پانے والی لڑکیوں کو جب حیا کا درس دیا جائے تو وہ اپنے محاسِن کی طرف دعوت دینے سے بھی نہیں کتراتیں ـ اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے
ہم رِیش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مِس زُلف دکھاتی ہیں کہ اِس لام کو دیکھو
انگریزوں نے برِصغیر میں جو نظامِ تعلیم رائج کیا اِس کا مقصد دین سے بے بہرہ ، شرم و حیا سے عاری اور شیوہءِ مغرب کی پرستار خواتین پیدا کرنا تھا تا کہ نئی نسل ایسے ہاتھوں میں پرورش پائے کہ آگے چل کر وہ انگریزوں کی بے دام غلام اور وفادار ثابت ہو سکے ـ وہ اپنے مقاصد میں کس حد تک کام یاب ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس تعلیم سے ایسی قوم پیدا ہو چکی ہے جو " ویلنٹائن ڈے " جیسے بے ہودہ تہوار کو منانے کے لیے علماے دین و مفکّرین پر پھبتیاں کستے اور اس دن اُن چیزوں ( کہ جو اس بے ہودگی کے لیے لازم ہوتی ہیں ) کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کرتے ، بلکہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں مُفت بانٹتے ہیں کہ کوئی بھی اس گُناہ سے محروم نہ رہ جائے ـ جب کہ کتنے ہی مذہبی تہوار آتے ہیں جیسے کہ : رمضان المبارک ، عیدین ، ربیع الاوّل وغیرہ لیکن ان کی زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں ـ
اِسی لیے مفکّرینِ قوم و ملت اس ماڈرن تعلیم کو بالعموم مرد و عورت دونوں ...... لیکن عورت کے لیے ( جو اُس کی نسوانیت اور جذبہءِ امومت کی قاتل ہو ) بالخصوص خطرہ سمجھ کر منع کرتے آئے ہیں ـ ڈاکٹر اقبال کہتا ہے
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
اقبال کَہ رہے ہیں کہ جس تعلیم کو حاصل کرکے عورت نازن ہو ، اس کی شرم و حیا نہ رہے ، کُھلے بالوں ، تنگ لباس ، برہنہ بازوؤں کے ساتھ بازاروں اور شاپنگ سنٹروں میں پھرتی رہے ...... وہ اُس کے حق میں تعلیم نہیں موت ہے ـ
اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمعِ محفل پہلے چراغِ خانہ تھی
تعلیمِ دُختراں سے یہ اُمید ہے ضرور
ناچے " دُلہن " خوشی سے خود اپنی برات میں
ایک مقام پر اقبال نے اس طرح چوٹ کی ہے :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روِشِ مغربی ہے پیشِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گُناہ
قارئینِ محترم! عورت کے دل و دماغ کو مذہبی تخیّلات کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے ـ اس لیے یہ ضروری ہے کہ نسلوں کی اچھی تربیّت کے لیے لڑکیوں کو ابتدا ہی سے مسٹر چپس اور سنڈریلا جیسی بے ہودہ کہانیاں پڑھانے کے بجاے ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں ـ جس میں ناظرہ و تفسیرِ قرآن ، کچھ فقہی احادیث ، عقائد و مسائل شامل ہوں ـ جب وہ مذہبی تعلیم سے فراغت پالیں تو اُنھیں اسلامی تاریخ ، علمِ تدبیر ، خانہ داری اور حفظِ صحت کے اُصول پڑھائے جائیں ـ
مغربی تہذیب کے عظیم نقّاد ، ہندستان کے مایہ ناز شاعر سید اکبر حسین الٰہ آبادی مغربی تعلیم کے بجاے عورتوں کے لیے اسلامی اور مشرقی عُلوم کا حصول ضروری قرار دیتے ہیں ـ
کلیاتِ اکبر الٰہ آبادی ، حصہ اوّل ، صفحہ 160 پر کہتے ہیں :
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے
ـــــــــــــــــــ
حصّہ سِوم میں کہتے ہیں :
لیکن ضرور ہے کہ مناسب ہو تربیت
جس سے برادری میں بڑھے قدر و منزلت
ہر چند ہو عُلومِ ضروری کی عالمہ
شوہر کی ہو مُرید تو بچوں کی خادمہ
ـــــــــــــــــــ
مذہب کے جو اُصول ہوں اس کو بتائے جائیں
باقاعدہ طریقِ پرستش سکھائے جائیں
اوہام جو غلط ہوں دل سے مٹائے جائیں
سِکے خدا کے نام کے دل میں بٹھائے جائیں
یہ کیا ، زیادہ گِن نہ سکے پانچ سات سے
لازم ہے ، کام لے ، وہ قلم اور دوات سے
ــــــــــــــــــــــ
گھر کا حساب سیکھ لے وہ آپ جوڑنا
اچھا نہیں ہے غیر پے یہ کام چھوڑنا
ـــــــــــــــــــــ
کھانا پکانا جب نہیں آیا تو کیا مزا
جوہر ہے عورتوں کے لیے یہ بہت بڑا
سینا پرونا عورتوں کا خاص ہے ہُنر
درزی کی چوریوں سے حفاظت پے ہو نظر
تعلیم کی طرف ابھی اور اِک قدم بڑھیں
صحت کے حِفظ کے جو قواعد ہیں وہ پڑھیں
پبلک میں کیا ضرور ہے جا کر تنی رہو
تقلیدِ مغربی پے عبث کیوں ٹھنی رہو
اربابِ علم و دانش! یہ ہے وہ فکری خاکہ جو اپنے وقت کے دانش وروں نے عورت کی تعلیم کے لیے پیش کیا تھا ........... جیسے ہی انگریز اپنی منحوس تعلیم یہاں لایا وہ بھانپ گئے کہ قومِ مسلم کی خواتین کے لیے زہرِ قاتل ہے ـ اُنھیں خطرہ ہے تو صرف یہ کہ ” زن “ ( عورت ) ” نازن “ نہ بن جائے ــــ عورت ” چراغِ خانہ “ کے بجاے ” شمعِ محفل “ نہ بن جائے ـ جو اُنھیں خدشہ تھا ایسا ہی ہوا ـ اکبر الٰہ آبادی ، کلیات کے دوسرے حصے میں کہتے ہیں :
اپنی اسکولی بہو پر ناز ہے اُن کو بہت
کیمپ میں ناچے کسی دن اُن کی پوتی تو سہی
یہ خدشہ اکبر الٰہ آبادی نے ظاہر کیا تھا آج اُسی طرح ہو رہا ہے کہ تعلیمی اداروں ، سکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں کلچر اور آرٹ کے نام پر دیّوث مرد اپنی بیٹیوں کو نچواتے اور تالیاں بجا بجا کر داد دیتے ہیں ـ
جب لڑکیوں کو ایسی حیا باختہ تعلیم دی جائے گی تو لازمی نتیجہ " ویلنٹائن ڈے " پر بے ہودگیوں کی صورت میں سامنے آئے گا ـ اکبر الٰہ آبادی اور اقبال کے دَور کے بعد کے ایک نام ور شاعر " شکیل بدایونی " نے اپنے کلیات میں " ترقیِ معکوس " کے عُنوان سے کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کا نقشہ کھینچا ہے : چند اشعار ملاحظہ کیجیے !
جو ذرہ ہے وہ اپنی جگہ مہر بلب ہے
کالج کی عمارت ہے کہ ایوانِ طرب ہے
ایک ایسے ہی ایوانِ طرب کی ہے یہ تفسیر
ہے جس کی مِری نظم کے اشعار میں تصویر
ماحول میں گونجی ہے لرزتی ہوئی آواز
ایک ختم ہو اور دوسرے گھنٹہ کا ہے آغاز
کانوں سے ترقی کی صدا گونج رہی ہے
آنکھوں سے زمانے کی ہوا کھیل رہی ہے
حُوروں کے وہ جھرمٹ میں جوانوں کا نکلنا
بد مست نگاہوں کا وہ گِر گِر کے سنبھلنا
کمرے کو بنایا ہے چمن سَینٹ کی بُو نے
ہیں قُرب میں ہر رنگ کی ساڑی کے نمونے
درجہ ہے کہ بازیچہءِ اربابِ محبّت
لکچر ہے کہ افسانہءِ آدابِ محبت
اِک سمت وہ ہر سوٹ کی تزئین مکمل
اِک سمت وہ شانوں پہ ڈھلکتے ہوئے آنچل
اِک سمت وہ ہر آنکھ کے مبہم سے اشارے
اِک سمت وہ چہروں کے تجسّس میں نظارے
کوئی دلِ شِیریں کسی فرہاد کی جانب
کیا خوف ، کہ نظریں تو ہیں اُستاد کی جانب
لکچر کسی پہلو سے اہم ہو تو بَلا سے
منت کشِ ادراک و قلم ہو تو بَلا سے
ہے صرف غَرض حُسن و نظر سے طلبا کو
روکے کوئی کس طرح ترقی کی وبا کو
کیا سیکھنے آئے ہیں یہ کیا سیکھ رہے ہیں
کچھ اپنے مضامیں سے جُدا سیکھ رہے ہیں
جُغرافیہ پڑھتے ہیں کسی کوئے حسِیں کا
تاریخ سکھاتی ہے اِنھیں قصہءِ لیلیٰ
ہے فلسفہ ان کے لیے عُنوانِ محبّت
اُردو کا سبق شرحِ گلستانِ محبّت
مضمونِ ریاضی میں بھی قابل ہیں یہ حضرات
باقاعدہ گِنتے ہیں شبِ ہجر کے لمحات
سَیری نہ ہوئی تھی ابھی رنگین فضا سے
دل ٹوٹ گیا تیسرے گھنٹہ کی صدا سے
{ کلیاتِ شکیل بدایونی ، ص 306 تا 309 ط الحمد پبلی کیشنز لاہور }
باتمکین قارئین! خُدا لگتی بتانا اگر ایسی زہر آلود تعلیم صنفِ نازک کو دلوائی جائے تو کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حیا کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے ؟؟؟
کبھی نہیں ....... ہرگز ہرگز نہیں!!!
تو پھر آنے والی نسلوں کو " ویلنٹائن ڈے " سمیت دیگر یہود و نصاریٰ کی بے ہودہ اور گندی تہذیب سے پاک کرنے کے لیے اسلامی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجیے ، بچیوں کو سورۃ النور شریف کی تفسیر پڑھائیے ، جنتی زیور اور بہارِ شریعت کا مطالعہ کروائیے ............. اور اگر آپ اپنی بچیوں کے کردار میں خواتینِ اسلام کی خوش بُو کی مہک چاہتے ہیں تو بچیوں کو دعوتِ اسلامی کے ماحول سے وابستہ کر دیں اور ایک مرتبہ " فیضانِ شریعت کورس " ضرور کروا دیں ........ ان شاء اللہ! آپ بھی اور آپ کی بچیاں بھی اپنے اس بھائی ( مشرّف القادری ) کو ساری زندگی دعائیں دیں گے ـ
۱۹ جمادی الاخریٰ ، ١٤٤١ ھ
13 فروری ، 2020 ء / شبِ جمعہ
No comments