ویلنٹائنز ڈے ایک لعنت سے کم نہیں ازقلم زبیر ملک

 

*ویلنٹائنز ڈے ایک لعنت سے کم نہیں*

*از قلم: زبیر ملک (ٹھل حمزہ، پنجاب پاکستان)*


فروری کا مہینہ رواں دواں ہے اور چودہ فروری کو ایک دن منایا جاتا ہے جسے "ویلنٹائینز ڈے" کہتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اسلام میں تو صرف دو ہی تہوار منائے گئے۔ تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ یہ تیسرا بدبودار تہوار کہاں سے آ گیا؟ اس غلاظت کو کیوں دنیا جوش و خروش مناتی ہے؟ افسوس کا عالم یہ ہے کہ مسلم دنیا بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ اسلامی احکامات اور قوانین کو پس پشت ڈال کر اس جھوٹی، مکار یار فریبی دنیا کے دھوکے میں آ کر دانستہ اور غیر دانستہ طور پر مسلمان بھائی اور بہنیں اس گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آخر کار اس کی تاریخی معلومات ہیں کیا جن سے آشنا ہونا وقت کی ضرورت بن گیا ہے..!!

"روم میکنگ کلیڈس ٹو" کے زمانے میں "سینٹ ویلنٹائن" نامی ایک بے حیا پادری تھا۔ تاریخ میں اُس کے متعلق تین روایات ملتی ہیں اور تینوں میں یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناپاک شخص ایک پادری تھا۔ جس طرح ہم اردو میں کسی عظیم مذہبی شخصیت کو علامہ، مولانا یا حضرت، بزرگ صاحب وغیرہ کہتے ہیں، ویسے ہی عیسائیت میں اُس پادری کو "سینٹ" کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ یہ تیسری صدی بعد از عیسائیت کا واقعہ ہے۔ یہ شخص اُس حکومت کے سپاہیوں کی شادیاں حکومت کے خلاف کرواتا تھا۔ بار بار قانون توڑنے پر اُس وقت کے بادشاہ "کلیڈس" نے سینٹ ویلنٹائن کو ان حرکتوں پر جیل میں بند کردیا۔ سینٹ ویلنٹائن ایک ایسا بدمزاج آدمی تھا جو مزاج عشق و بے حیائی میں مبتلا تھا۔ جب اسے جیل میں ڈالا گیا تو اس بد بخت نے اُسی جیلر کی بیٹی کو عشق کے جھانسوں میں پھنسا لیا اور اس کے ساتھ ایک ناجائز رشتہ قائم کیا۔ اُس جیلر کی بیٹی سینٹ ویلنٹائن کی ایسی دیوانی ہو گئی کہ وہ ہر روز چھپ کر اُسے ملنے آیا کرتی تھی۔ اور ہاتھ میں گلاب لیے اپنے اس ناجائز محبوب سے محبت کے نام پر بے حیائی کا اظہار کرتی۔ سینٹ ویلنٹائن نے اس لڑکی کو اپنا ایسا دیوانہ بنا لیا تھا کہ اُس نے اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائیت قبول کرلی۔ لڑکی کے باپ "جیمی جیلر" کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ سیدھا بادشاہ کے پاس گیا اور کہا کہ جس آدمی کو یہ سوچ کر سزا دی تھی کہ وہ سدھر جائے گا، اُس نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا، میری ہی بیٹی کو پھنسا لیا ہے۔ تاریخ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے شاہی خاندان کی بیٹی کو عشق کے جھانسے میں پھنسا کر اُس کا مذہب تبدیل کروا دیا۔ بادشاہ کو اتنا غصّہ آیا کہ اس نے سینٹ ویلنٹائن کو پھانسی کی سزا سنا دی جو کہ چودہ فروری کو دی جانی تھی۔ جب پھانسی کا اعلان ہوا تو اس کی معشوقہ رونے لگی۔ سینٹ ویلنٹائن نے مرنے سے پہلے اس لڑکی کے نام اپنا آخری خط لکھا۔ اور اُس خط میں لکھا کہ "تمہارا ویلنٹائن"۔ آخر کار سینٹ ویلنٹائن کو چودہ فروری کو پھانسی دے دی گئی اور وہ مردود مر گیا۔

یہ واقعہ تیسری صدی کا ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ بارہویں صدی تک کسی نے بھی اسے اس انداز میں نہیں منایا تھا جس طرح اب سر عام بے حیائی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بارہویں صدی میں ان عیسائیوں نے ایک سازش چلی۔ سوچا کہ مسلمانوں کو اس دھوکے میں ڈالا جائے۔ اپنے اُس غلیظ پادری کے دن کو منایا جائے۔ اس دِن کو اس پادری کے نام سے جوڑ دیا گیا۔ پھر اس کو ویلنٹائن ڈے نہیں بلکہ ویلنٹائنز ڈے یعنی "ویلنٹائن کا دن" کہا جانے لگا جو کہ آج تک بھی رائج ہے۔ 

ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم ہر سال کون سا گناہ کرتے ہیں۔ بنا کچھ سمجھے، بنا کچھ جانے، بنا کچھ تحقیق کیے اس بد بخت کی موت کو منایا جاتا ہے، گناہوں کو عام کر کے، اپنی حیا کو چھوڑتے ہوئے۔ آج بھی ناواقف اور غافل لوگ لال گلاب لے کر نکل پڑتے ہیں۔ آج بھی عشق میں پڑے بے کار عاشقوں نے بے حیائی کی محفلیں سجائی ہوئی ہوتی ہیں۔ آخر کیا ہو گیا ہے ہمیں؟ ایک پادری کا دِن منا رہے ہیں جس نے گناہوں اور بے حیائی کو عام کیا تھا!! حیف ہے ہم پر۔ یہ ویلنٹائن ڈے نہیں، بدکاری ڈے ہے، زنا ڈے ہے، فحاشی ڈے ہے جس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو غیر محرم کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے کی دعوتیں دی جا رہی ہیں۔ گناہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایک عیسائی پادری، ذرا سوچیے تو۔ عیسائیوں کے گرجا گھروں میں یہ پادری جنہیں "فادر" کہا جاتا ہے اور جو گرجے کے اندر ایک نرس ہوتی ہے اُسے "سسٹر" کہتے ہیں۔ اُن پر یہ پابندی ہے کہ شادی نہیں کرنی۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے چرچ ہیں، گرجے ہیں، وہ سب عبادتگاہیں کم اور زناگاھیں زیادہ ہیں۔ یہ تو ایک عجیب بات ہوتی ہے نا کہ اخبارات میں کسی مسجد میں کسی مولوی صاحب کا واقعہ آ جائے تو صف اول پہ لکھا جاتا ہے۔ جائیں کبھی کہیں جا کے دنیا میں تحقیق تو کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ جنسی راہروی کے واقعات گرجا گھروں میں ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے مذہبی قانون کے تحت عیسائیوں میں جو پادری بنتا ہے یا سسٹر بنتی ہے وہ شادی نہیں کر سکتے۔ اپنے پادری پر لگی اس لعنت کو مٹانے کے لیے ایک سوچی سمجھی گھناؤنی سازش کے تحت اس برے فعل کو پسندیدہ بنایا گیا جس سے مسلمان بھی نہ بچ سکے۔

یہ فریضہ آج کل موبائل ما شاء اللہ بہت خوبی سے سرانجام دے رہا ہے۔ دس روپے میں سارا دن بات کرو، پچاس روپے میں سارا ہفتہ بات کرو، دو سو روپے میں سارا مہینہ بات کرو، سب لگے ہوئے ہیں پاگلوں کی طرح۔ تعلیمی اداروں میں موسیقی کی محفلیں سجا کر نوجوان نسلوں کا نہ صرف مستقبل تباہ کیا جا رہا ہے بلکہ اپنے مذہب اسلام سے دور رکھنے کی ایک منظم سازش عروج پر ہے۔ انتہا درجے کی گمراہی کا راستہ کھل چکا ہے جس کو روکنا ناقابل یقین حد تک آگے جا چُکا ہے۔  ایک ناپاک اور نجس نام دے کر محبت کی عید قرار دیا گیاہے۔ ناپاک اور ناجائز تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنے والے یہ دن، آج دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمان بھی مناتے ہیں۔ وہ اسلام کہ جس میں غیر محرم کو چھونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے دماغ کے اوپر کیل رکھے پھر اُس کو ٹھوک لے یعنی خودکشی کرلے۔ یعنی اس حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ خودکشی کا اتنا عذاب نہیں ہے جتنا غیر محرم کو چھونے کا ہے۔ وہ اسلام جس کے اندر تیرے گھر میں کوئی بے ضمیر جھانک رہا ہے، تُجھے اجازت ہے کہ تو اُس کی آنکھ کو پھوڑ دے۔ وہ اسلام جس میں کوئی پاکیزہ عورت تیری بیوی، بیٹی، ماں اور بہن خوشبو لگا کر مسجد میں نہیں آ سکتی، ایسا کرنے پر غسل جنابت کا حکم ہے، اُس اسلام میں غیر محرم لڑکے اور لڑکیاں محبت کے نام پر گلچھڑے اڑائیں، یہ کہاں کے اسلام کا کلچر ہے؟ یہ موم بتی مافیا سیکولرزم والے لوگ اسلام کا دنیا سے جنازے نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان کی گندی رسموں کے خلاف آواز حق کو بلند کرنا ہے۔ ہم نے یہ دِن، حیا کا دن منانا ہے، امن کا دن منانا ہے۔ پردے کے احکامات کو عام کرنا ہے، شرم و حیا کے کنسیپٹ کو مزید اجاگر کرنا ہے تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ اور پوری دنیا میں اسلام غالب آ جائے۔ اسلامی تعلیمات کا بول بالا ہونے لگے۔

No comments