اقسامِ انسان فریحہ مریم محمد سلیم سیالکوٹ

 اقسامِ انسان

فریحہ مریم محمد سلیم سیالکوٹ

ہم انسان اپنی زندگی میں بہت سے ایسے لمحات و واقعات اور اشخاص  سگ ملاقات کرتےہیں جو شاید اگر ہم یہ جان جاتے سامنا کرنے سے پہلے کہ یہ ہمیں کتنی مشکلات کا سامنا کروائے گا  تو یہی کہتے کے میں اس کو سہار نہیں سکتا۔ 

مگر یہ بھی شاید ایک طرح کی نعمت ہے اور انعام ہے اس رب کریم کی طرف سے کہ وہ ہم سے ہماری برداشت سے زیادہ امتحان نہیں لیتا ہے۔ 

ہم زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بہت سےلوگوں سے ملتے ہیں جو کہ اپنی الگ الگ شخصیات و نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تھوڑے آسان واقع ہوتے ہیں مگربہت سے لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جن کی شخصیت اور نظریہ ہمیں سمجھ نہیں آتا۔

 یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہماری سوچ سے بالاتر ہوتے ہیں مگر بات وہیں آجاتی ہے کہ سمجھ نہیں آتے۔

ہاں!وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔

پھر ہمارا تعلق بھی ان دونوں قسم کے لوگوں کے ساتھ معنی رکھتا ہے وہ ہمارے قریب کتنے ہیں یا دور کتنے ہیں۔

اگر بات کی جائے پہلی قسم کے لوگوں کی جو کہ شخصیت و نظریات میں کچھ آسان ثابت ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں سے ہماری بات چیت چل پڑتی ہے کیوں کہ ایسے لوگ کہانی نہیں ہوتے کھلی کتاب ہوتے ہیں۔ 

ایسی کتاب جس کے صفحات کو آپ پلٹ کر پڑھ لیتے ہیں جہاں سے سمجھ نہ آتی ہوں اس الجھن کو سلجھا لیتے ہیں۔ 

ایسے لوگ طبیعیت کے بھی خوبصورت لگتے ہیں جو باتوں میں راز نہیں رکھتے اور لہجوں میں شہد نہیں رکھتے۔

جیسے ایک کھلی کتاب کو ہم مرضی سے پڑھ پاتے ہیں ویسے ہی ہم ایسے لوگوں کو پڑھ پاتے ہیں اور انکے تجربات واضح ہمارے سامنے ہوتے ہیں جیسے ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔

مگر بات کی جائے دوسری قسم کے لوگوں کی جو کہ مشکل شخصیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے نظریات بھی کچھ پیچیدہ سے معلوم ہوتے ہیں۔ 

توایسے لوگ جو خود کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے اور اپنی ہی موج کے کھلاڑی ہوتے ہیں۔

یعنی وہ لوگ جو بند کتاب جیسے ہوتے ہیں۔

وہ عادتاً بھی کچھ خاموش ہوتے ہیں یا فطرتاً ایسا کرتے ہیں مگر خود کو ظاہر کرنا انہیں نہیں بھاتا۔ 

پھر ان سے ہم زیادہ طویل بات بھی نہیں کر پاتے اور نہ ہی ان کے تجربات و خیالات کا اندازہ لگا پاتے ہیں۔ پھر بند کتاب جیسے لوگوں کا نظریہ ہو، شخصیت ہو ، تجربات ہوں یا خیالات ہم ان تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ 

بس وہ ایک بند کتاب ہم دیکھ کر چھوڑ جاتے ہیں کہ اس سے ہم کچھ حاصل نہیں کر سکتے نہ کوئی بات، نہ کوئی اچھی اور سبق آموز حقیقت اور نہ ہی کوئی اچھی یاد۔ 

مگر ان دونوں حالات کے درمیان میں بھی ایک ایسی حالت موجود ہے جس میں کچھ ایسا مجموعہ پایا جاتا ہے ایسی شخصیت رکھنے والے انسانوں کا جو دونوں طرف کے لگتے ہیں۔ 

وہ ایسے لگتے ہیں جیسے ان کا ایک پہلو عیاں ہوتا ہے آپ پر تو وہ اپنا دوسرا پہلو آپ پر عیاں نہیں کرتے۔ 

وہ لوگ جو دکھاوے کی صف میں آتے ہیں ہوں گے وہ ظاہری ایسا خول چڑھا لیں گے خود پرجو انکا باطن چھپا دیتا ہے۔

یہ ہوتے ہیں وہ لوگ جو انتشاری ہوتے ہیں۔ جنہوں نےلوگوں کا استعمال کرنا ہواور معصوم لوگوں کو انکی معصومیت سے ہی انہیں ہی نقصان پہنچانا ہو۔ 

ایسے لوگ اکثر پائے جاتے ہیں معصوم لوگوں کے پاس جو نہیں جانتے کے دوغلا پن بھی اس دنیامیں پایا جاتا ہے جو نہیں جانتے کہ اس دنیا میں دوہری شخصیت، دوہرا نظریہ، دوہرا خیال رکھنے والے لوگ بھی ہمہ وقت رہتے ہیں۔ 

اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے موجود ہونے کی وجہ سے دوسرے یعنی اچھے لوگ نظر آنا بند ہو جاتے ہیں۔ 

 اچھائی چاہے موجود ہو مگر برائی ایسی خوبصورت شکل میں آتی ہے کہ انسان کی آنکھیں اچھائی سے مبرا ہو جاتی ہیں۔ 

پھر وہ معصومین جو ناواقف ہوں اس روایت سے کہ برائی کو خوبصورت سے خوبصورت پہناوے میں پیش کیا جاتا ہے، اس کی زد میں آ جاتے ہیں اور گنوا بیٹھتے ہیں خود کی شخصیت، خود کا نظریہ اور خود کا تخیل خاص بھی۔

پر یہ حقیقت جب ان پر ظاہر ہوتی ہے تووہ حقیقتاً اپنا آپ چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور حقیقت سے آشکار ہونا اس دنیا میں تلخ ترین تجربہ ہے جس کے بعد انسان اپنی طرف دیکھتا ہے تو نفرت محسوس کرتا ہے۔

مگر اس کے بعد بھی دو قسم کے لوگ سامنے آتے ہیں۔

ایک وہ لوگ جو کہ خود کو نہیں سنوار پاتے۔ جو لوگ ان دوغلے لوگوں کی زد میں آنے کے بعد خود کو واپس نہیں لا پاتے۔

اس دائرہ سے خود کو باہر نہیں لے جا سکتے اور پھر اس دائرہ کے مدار میں ہی گھوم گھوم کر خود کو ضائع کر دیتے ہیں۔ 

اپنی شخصیت کو ختم کر دیتے ہیں، اپنے نظریات کو ختم کر دیتے ہیں اور اپنے تخیل کو ضائع کر دیتے ہیں۔ 

اپنی زندگی کو اس دائرہ کا محتاج کر کے خودپرظلم کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کا مقصد ضائع کر دیتے ہیں۔

پھر آتے ہیں دوسری قسم کے لوگ جودوغلے لوگوں کی زدمیں آنے کے بعد خود کی طرف دیکھ لیں تو سنوارنے کی طرف آتے ہیں اور اپنا آپ ان لوگوں کے چنگل سےچھڑا لیتے ہیں۔

ایسے لوگ بہت تکالیف سے گزرتے ہیں کیونکہ اس کام میں بہت درد ہے۔

خود کو برائی سے اچھائی کی طرف لانا درد ناک یے مگرجب درد لفظوں سے بیاں ہونے سے قاصر ہو۔

جب جزبات کا بہاؤ ہمیں وہاں لے جاتا ہو جہاں صرف آپ ہوں اور صحرا جیسی دھوپ ہو۔

جب آپکے الفاظ آپکا عکس بننے لگیں۔ 

جب آپ کے آنسو صدا بننے لگیں 

جب آپ کی صدا اک ندا بننے لگے مگر پھر بھی آپ کو سننے، سمجھنے اور بانٹنے والا کوئی نہ ہو۔

جب آپکی آہیں آپکے ہی کانوں اور آپکے کمرے کی دیواروں سے ٹکڑا کر واپس آپ تک ہی آتی ہوں۔

جب آپکا درد بھی کراہتا ہو ان آوازوں کے ٹکڑانے سے جب ان آوازوں کا شور بڑھ جائے اور کان تک ہاتھ بلاوجہ چلے جائیں مگر آہ ایک دل سوز چیچ نکلے ساتھ ہی اور سناٹا چھا جائے۔ 

ایسا سناٹا جس میں آپکی سانسوں اور آہوں کا مندمل  سا شور ابھرتا ہو 

اور آپ اس مندمل شور کو سنتے سنتے تھک جائیں 

تھکاوٹ چور کر دے جسم کے پور پور کو اور آپ کا پور پور دکھنے لگے 

تکلیف دہ، ازیتناک شور تھم چکا ہو مگر جسم کا پور پور ،چور چور  ہو چکا ہو ۔ 

پھر بھی اٹھنا ، ہاتھ بڑھا کر بال سیدھے کرنا ، آنسو صاف کرنا ، سانس بحال کرنا اور کھڑے ہو جانا 

کبھی نہ گرنے کے لیے اور ہر ازیت سے دوچار قدم پر عزم کر لینا کہ میں ابھر کر دکھا دوں گی، ہر راہ پا لوں گی ،ہر چاہ مٹا دوں گی،ہر مان دلا دوں گی،ہر لفظ سہہ کر گزار لوں گی اور ہر مات ہرا دوں گی۔

یہ ہوتا ہے صبر کی حد کو چھو کر اٹھ جانااور بالاشبہ ایسے ہی لوگ اصل انعام کے حقدار ہوتے ہیں ۔

ایسے لوگ ہی سر اٹھا کر جینے کا حق رکھتے اور دنیا کو فتح کرنا جانتے ہیں۔ 

مشکل سے مشکل ترین حالات کو پارکرنے کے بعدجو انسان کھڑا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اصل انسان جو کہ انسان کہلائےجانے کے قابل ہوتا ہے۔ 

ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی صحبتیں، رویے، نظریہ اور تخیل کو خوبصورت بنانے پر عمل کریں تا کہ ہم خود کا سہارا، خود کی ہمت اورخود کا ہتھار خود ہی ہوں اور ایک انسان کہلائے جانے کا درجہ رکھتے ہوں جو "انسان" ہو بھی۔

************************

No comments