افسانہ دعا از قلم ماہ نور نثار احمد

 

افسانہ:  دعا

  از قلم : ماہ نور نثار احمد_شکرگڑھ 

ٹِک ٹِک ٹِک 

الارم کی مسلسل آنے والی آواز سے اس کی آنکھ کھلی تو اسے احساس ہوا کہ کمرے میں وہ اکیلی ہے- یقینأ عبد اللہ نے فریحہ کے لئے الارم لگایا تھا اور خود وہ تہجد پڑھ کر مسجد میں نماز کے لئے جا چکا تھا - فریحہ کو اس کی عادات کا اب اندازہ ہو گیا تھا کیونکہ آج انہیں اپنے نئے گھر میں آئے ہوئے چار دن گزر چکے تھے - فریحہ نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز ادا کرنے کے بعد دعا مانگے بغیر ہی جائے نماز سے اٹھ کر اپنی گرم سرخ رنگ کی چادر اوڑھے باہر چھوٹے سے بنے باغیچے میں آ بیٹھی - صبح کی ٹھنڈی ہوا نے اسے تازہ دم کر دیا تھا- خوب صورت رنگوں کی چھوٹی بڑی کلیاں جو اپنے کھلنے کے لئے سورج کی روشنی کے انتظار میں تھیں بھلی لگ رہی تھیں -

ہر پتے پر گرے اوس کے قطروں نے پتوں کی سطح کو صاف کر دیا تھا - موتیوں کی مانند یہ ننھے ننھے قطرے جب ایک دوسرے سے ملتے تو نیچے گر جاتے تھے - اندھیرا چھٹ رہا تھا اور صبح کی روشنی نے درختوں کے پرندوں کو بھی جگا دیا تھا - اور ان کے چہچانے کی آوازوں نے رات کے سکوت کو توڑ دیا- 

آج مطلع صاف تھا - بہت دنوں بعد سورج طلوع ہونے کی امید تھی - لیکن اس کی زندگی کا سورج اب روشنی نہیں دیتا تھا-اپنی زندگی کے لئے جسے وہ سورج سمجھتی تھی - وہ آگ بن کر اسے راکھ کرنے لگا تھا - 

وہ آج عبداللہ کا بے تابی سے انتظار کر رہی تھی - اس کا ذہن اپنے خیالات سے چھٹکارا پانے سے قاصر تھا- اپنی گزشتہ زندگی کے حالات و واقعات اس کی آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی مانند چلنے لگے تھے - ان

 خیالات نے فریحہ کا ماضی, حال اور مستقبل سب کچھ ہی چھین لیا تھا - 

وہ کیسی زندگی گزار کر آئی تھی - گانے سننا تو اس کا بہترین مشغلہ تھا, وڈیوز بنانا , پارٹیز میں رات دیر تک دوستوں کے ساتھ رہنا,  وہ سنیما وہ ڈرامے - کیا تھا سب کچھ ؟ اور کیوں کیا اس نے ایسا ؟ آخر اتنی دوری کیوں رب سے ؟ 

اپنے گزشتہ گناہوں پر آج وہ پشمان تھی - 

"مجھے تو کبھی معافی نہیں ملنی- آخر میں کس منہ سے دعا مانگوں آپ سے الله؟ " آنسو کی ایک قطار اس کی آنکھوں کے کناروں سے نکل کر رخسار پر آ گری تھی - 

" پتا نہیں کیوں آپ نے مجھے اتنا اچھا شوہر عطا کر دیا - میں نے تو کوئی اچھا کام نہیں کیا - میں نے تو آپ کو یاد بھی نہیں کیا - پھر آپ نے مجھے ایسا شوہر کیوں عطا کر دیا جو آپ کو ہر وقت یاد رکھتا ہے جیسے دیکھتے ہی میرا دھیان صرف آپ کی طرف کھنچا چلا آتا ہے- 

بتائیں مجھے اب میں کیسے کروں آپ کا سامنا ؟" 

مارے بے بسی کے فریحہ نے اپنا سر گھٹنوں پر گرا لیا تھا - اور آنسوؤں کا ایک سیلاب اس کے رخساروں پر بہنے لگا تھا - وہ جو کبھی روئی نہیں تھی جسے  دنیا کی ہر چیز اس کے کہے بغیر سامنے رکھ دی جاتی تھی- آج زارو قطار رو رہی تھی - آج اسے دنیا کی چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا - 

" مجھے معاف کر دیں الله جی - مجھے معاف کر دیں " بس یہی الفاظ نکل رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے - کہ اچانک انسانی ہاتھوں کا لمس اسے اپنے کندھوں پر محسوس ہوا - اس نے سر کو اٹھایا - 

" عبد اللہ!! آپ آگئے - " اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کئے تھے- 

سفید کاٹن کی شلوار قمیص میں ملبوس, خوبصورت آنکھوں والا, وجہہ نوجوان اس کے ساتھ آ بیٹھا تھا - 

" میں بہت دیر سے آ چکا تھا - اور اگر آپ اس طرح سے نا روتیں تو شاید آپ کو ایسے ہی بیٹھے دیکھتا رہتا - " اس نے فریحہ کے رخساروں سے آنسو کو صاف کرتے ہوئے کہا - 

" آپ کو یہ عشق کیسے ہوا عبد الله ؟" فریحہ نے رھندی ہوئی آواز میں پوچھا - 

"کیسا عشق ہے آپ کا جو آپ گرم بستر کو چھوڑ کر اس کے پاس چلے جاتے ہیں ؟ "

"کیسا تعلق ہے جو آپ سے ملاقات کرنے کے لیے آپ کو پانچ بار بلاوا بیجھتا ہے ؟"

"یہ بندے سے رب کا تعلق ہے- ایک خالق کی اپنی مخلوق سے محبت ہے- ایسا تعلق جو انسان کی توقیر میں اضافہ کرتا ہے - انسان کی زندگی کو مقصد دیتا ہے جسے پانے کے بعد انسان کو اپنی پہچان ملتی ہے- " 

وہ متحیر نظروں سے اس بولنےوالے کو دیکھ رہی تھی - جو اسے اپنے پاس بیٹھا محسوس نا ہوتا تھا - وہ تو کسی اور ہی گماں میں خود کو کسی اور کے سامنے پیش کیے ہوئے تھا 

" اس دنیا میں میرا سب سے بڑا مقصد  اور اولین ترجیح اپنے رب کا بندہ کہلانا ہے - میں عبداللہ ہوں اور میں اپنے رب سے جو میری عزت, زندگی, موت اور زرق کا محافظ ہے جو مجھے سب سے زیادہ پیار کرتا ہے اور میں اس سے سب سے زیادہ عشق کرتا ہوں -"

"ہم جیسوں کو تو یہ عشق حاصل نہیں ہو سکتا " 

فریحہ کا شکوہ اسے اس جگہ واپس کھنچ لایا تھا - عبد اللہ اب فریحہ کے سامنے آ بیٹھا تھا- 

"اس عشق میں سب سے پہلا مرحلہ دعا کا ہوتا ہے" وہ فریحہ کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا- 

"دعا کا؟" فریحہ نے حیرت سے کہا - 

"جی دعا " دعا رب سے براہ راست بات کرنے کا ذریعہ ہے- الله پہلے خود انسان کے ذہن میں اس سوچ کو ڈالتا ہے- کہ وہ جس راستے پر ہے وہ غلط ہے - پھر یہ انسان کے ذمہ لگاتا ہے کہ وہ خود اس بات کا اعتراف کرے -

کہ اس کا راستہ غلط ہے وہ راہ راست پر آنا چاہتا ہے- اور اس اعتراف کا بہترین ذریعہ دعا ہے- جب انسان اپنی چاہت کو رب کی چاہت میں گم کر دیتا ہے تو اس کی مدد فرمائی جاتی ہے- " 

فریحہ اپنی نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کا ہاتھ تھامے اسے سیدھے راستے کی طرف لا رہا تھا - 

" مجھے دعا مانگنا نہیں آتی " 

فریحہ نے دلگیر لہجے میں کہا تھا - اور واقع ہی اس سے دعا نہیں مانگی جاتی تھی - 

اس بات پر عبد اللہ کھڑا ہوگیا اور زرا سا مسکرا دیا - اور کہا کہ " ہاں آپ کو تو باتیں کرنا آتی ہیں " - تو میں نے کب کہا کہ آپ دعا مانگیں - دعا ایک گفتگو ہے جو بندہ اپنے رب سے کرتا ہے - آپ بھی باتیں کیا کریں الله کے ساتھ - میں تو گھر نہیں ہوتا تو میری غیر موجودگی میں آپ کے پاس وافر وقت مو جود ہوتا ہے تو آپ باتیں کرلیا کریں الله کے ساتھ " 

فریحہ کے آنسو اب تھم چکے تھے اس کا دھیان عبد اللہ کی باتوں کو سمجھنے کی طرف تھا - 

"لیکن میں نے کبھی تصور نہیں کیا خود کو الله کے سامنے "

ایک اور معصومانہ سوال فریحہ کی جانب سے آیا تھا - 

"کبھی نہیں کیا تو اب کریں- 

اپنے بارے میں بتائیں الله پاک کو " 

"نہیں میں نہیں چاہتی کہ الله پاک پرانی فریحہ کو جانیں "

اس کی باتوں پر عبد اللہ کو بے پناہ پیار آیا تھا - 

"اچھا تو پھر آپ میری شکایات لگا لیا کریں الله پاک سے "

عبد اللہ نے مسکراتے ہوئے اس لال چادر میں لیپٹی اپنی خوبصورت ہمسفرکو دیکھا-

"نہیں آپ تو اتنے اچھے ہیں آپ کی کوئی شکایت نہیں کروں گی -" 

"تو پھر دعا کریں" عبد اللہ, فریحہ کے ہاتھوں کو تھام کر اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا - 

فریحہ نے اپنی آنکھیں بند کیں - اپنے اندر حوصلہ پیدا کیا- اور زندگی میں پہلی بار اپنے رب سے دعا کی " اور پہلی دعا اس شخص کے لئے جو اسے دنیا سے دور رب سے ملوانے اپنے پاس لے آیا تھا - بہت دیر فریحہ نے آنکھیں بند رکھیں اور اب آنسو بہنے لگے تھے - فریحہ نے سر جھکا لیا تھا - عبد اللہ, فریحہ اور رب کی باتوں میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن وہ فریحہ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا - 

" اور یہ بھی دعا کریں کہ میں آج بھی لیٹ نہ ہو جاؤں " 

عبد اللہ کی آواز پر فریحہ نے سر اٹھایا 

اور جلدی سے اپنے آنسو صاف کئے - کیو نکہ اسے بخوبی یاد تھا کہ عبد اللہ دو دن سے آفس وقت پر نہیں جا رہے - 

زیادہ تر وقت وہ فریحہ کے ساتھ ہی گزارتے تھے - 

"نہیں آج آپ کو دیر نہیں ہونے دوں گی میجر عبد اللہ "

فریحہ نے پر اعتماد لہجے میں کہا - جیسے اس دعا نے اس میں ہمت پیدا کر دی ہو - 

میجر عبد اللہ مسکرا دیا تھا اسے پہلی فریحہ پسند تھی لیکن اب والی فریحہ سے اسے محبت تھی - 

فریحہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور اندر کا رخ کیا -  عبد اللہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لے لیا اور کہا کہ 

" وعدہ کریں کہ اس دعا کرنے کے عمل کو آپ کبھی نہیں چھوڑیں گی " 

فریحہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اس تعلق کو عشق تک پہنچائے گی " 

اور پھر دونوں نے گھاس کے فرش پر چلتے ہوئے ایک نئی زندگی کی طرف قدم بڑھائے - 

والسلام

*********************

No comments