حجاب، عورت اور سماجی رویہ حافظہ ایمن عائشہ_منڈی بہاؤ الدین

 حجاب، عورت اور سماجی رویہ

 حافظہ ایمن عائشہ_منڈی بہاؤ الدین 

حجاب رحمت بھی تحفظ بھی

عورت اسلامی معاشرے میں تعمیرِ ملت کے لیے درکار ایک اہم صنف ہے۔جو ہر معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں کی صورت میں مشفق و مہربان کا پیکر، بیوی کے روپ میں غمگسار اور معاون، بیٹی کی صورت میں خدا کی رحمت ہے۔ عورت کے کئیں روپ ہیں اور ہر روپ میں وہ اعلیٰ و عرفہ مرتبے پر فائز ہے۔ ان ذمہ دار کرداروں کو احسن طریقے سے نبھانے کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس قیمتی آبگینے کی حفاظت کا بھی خوب انتظام کیا ہے۔ خوبصورت انتظام جو اسلام نے کیا اور ہر عورت کو کرنے کا حکم بھی دیا وہ حیا ہے۔ جس کو حدیث میں کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔

حیاایمان کا حصہ ہے_بخاری 

حیا تو ایسا وصف ہے جو مالک حقیقی نے بھی اختیار فرمایا۔ قرآن و حدیث میں جابجا اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عزت اور جلال والے خدا کے آگے جب بندہ ہاتھ پھیلا کر بھلائی مانگتا ہے تو وہ اس کو نامراد لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے۔ (بیہقی) 

ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جہاں اسلام نے مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا وہاں عورت کو بھی نگاہیں پست اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا کہا گیا۔ 

سورت النور میں واضح حکم ہے۔

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

حیا دراصل اسی حکم کی تعمیل کا نام ہے جس کو پردہ یا حجاب کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حجاب ہی ہے جو عورت کی زینت بھی بنتا ہے اور تحفظ بھی کرتا ہے۔ پردے کا حکم قرآن کریم میں واضح طور پر دیا گیا ہے۔

" اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ زیادہ مناسب طریقہ یہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں". (سورت الاحزاب 

سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے کس قدر واضح حکم دے دیا ہے کہ عورت کتنی قیمتی ہے اس کا خود کو چھپا کر رکھنا کس قدر اہم ہے۔ 

اس حوالے سے ہم اپنے معاشرے کا رویہ دیکھیں تو بہت تضاد نظر آتا ہے۔ حجاب والی عورت کو ذہنی پسماندگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے، کہ بیچاری بہت معصوم ہے دنیا داری کی خبر ہی نہیں ۔ یہ اس حالت میں کیسے دنیا کا مقابلہ کر سکے گی؟ یہ کیسے تعلیم حاصل کر کے معاشرے کو سنوارنے کا ذریعہ بن سکے گی؟ یہ کس طرح  مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکے گی؟  ۔ان سوالات سے عورت کے ذہن میں یہ فطور ابھرا کہ ہاں شاید میں غلط ہوں۔ مجھے معاشرے کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ ورنہ میں کبھی آگے بڑھ کر حالات کا سامنا نہیں کر سکوں گی۔

کوئی عورت کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے حجاب میں چلی جائے تو مخلوط نظام کے عوض اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کوئی جاب انٹرویو کے لیے چلی جائے تو جاب نہیں دی جاتی کہ یہ ہماری کمپنی کی پالیسی ہی نہیں۔

اس طرح کے شرمناک سماجی رویوں سے عورت تنگ آ کر اس ڈگر چل پڑی کہ حجاب کے بغیر زندگی آسان ہے۔ آہ۔ یہ تلخ رویوں کی وجہ سے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرنے چلی ہے۔  

دورِ حاضر کی عورت انتہائی افسوس ناک حالت کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرے کا وہ رویہ ہے جوکسی اسلامی معاشرے کا نہیں ہونا چاہیے۔ عورت جس تکریم و تحریم کی حقدار ہے اس کی فضیلت جس قدر زیادہ ہے یہ معاشرہ اس کی قدر و قیمت کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ 

خدارا! سماج کے اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ عورت کو جب حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ خود کو اس معاشرے کی گندی نظروں اور غلاظت کے ڈھیر سے خود کو بچا کر رکھے تو پھر یہ معاشرہ کون ہوتا ہے اس حکم کا مذاق اڑانے والا۔ یہ حجاب والی عورت کا نہیں اس حکم کا ذاق ہے۔ جو مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں زیب نہیں دیتا۔ معاشرتی رویوں کے ساتھ ساتھ ہماری عورتوں کا بھی قصور ہے۔ جو مغربی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا سمجھ بیٹھی ہیں، جسم کی ازادی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی ہیں، اندھی تقلید کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ابھی ںھی وقت ہے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں اسی معاشرے میں وہ خواتین بھی موجود ہیں جو سر سے پاؤں تک خود کو ڈھانپ کر نکلتی ہیں اور اپنا مقام خود بناتی ہیں۔ اسلام ایسی عورتوں پر فخر کرتا ہے۔ 

میری اس معاشرے کی ہر عورت سے التماس ہے کہ ان ہستیوں کو اپنا رول ماڈل بنائیں جو عفت و عصمت کا پیکر ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو، ان جیسی حیا اور پاکدامنی کو اپنا شعار بنا لیں۔ جب عورتیں یہ رویہ اپنائیں گی تو ایک تربیت یافتہ معاشرہ تشکیل پائے گا اور کسی تربیت یافتہ معاشرے کا یہ جاہلانہ رویہ نہیں ہوا کرتا۔

اللہ تعالیٰ تمام عورتوں کو اس حکم کا پاسدار بنائے۔ آمین

************************

No comments