افسانہ نازک کلی_عالیہ محمد سجاد علی

 افسانہ

نازک کلی

 عالیہ محمد سجاد علی_پسرور

باغ میں بیٹھی وہ نازک سی کلی اپنی ہی سوچوں کے گرداب میں غرق اپنی ذات میں مشغول آج ہادی کی یادوں میں گم وہ چہرے پر اداسی اور آنکھوں میں نمی لیے باغ میں گلاب کے پودے کے پاس بیٹھی تھی ہادی کی یادوں کو محسوس کرتے ہوئے اچانک اسے ایک ماضی کا قصہ یاد آگیا۔۔

بسمہ نے سیاہ ناگن جیسی ساحر آنکھوں پہ آئی لائنر لگایا اور پلکیں جھپکا کر ان کے مناسب حد تک قاتلانہ ہونے کا یقین سا کیا۔ آنکھوں کی ہی طرح سیاہ گھٹاوں سے چمکیلے سلکی بالوں کو آج کلپ کی قید سے آزاد کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ ریڈ اسٹالر  اسٹائل سے گلے کے گرد ڈالا ہوا تھا۔ ایک نظر خود کو دوبارہ آئینے میں دیکھ کر جلدی جلدی لپ اسٹک شائنر، ہیر برش اور باڈی اسپرے ہینڈ بیگ میں ڈالا نازک سی کالی سینڈل دودھیا پاؤں میں پہنی اور دوپٹے سے ذرا بڑی کالی چادر پہن کر باہر نکل آئی۔

 آج وہ بڑا دل لگا کے تیار ہوئی تھی کیونکہ آج وہ اپنے ہادی سے ملنے کے لیے بے چین تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر باغ میں پہنچ جائے۔

 اس نے کلائی پہ بندھی گھڑی پہ ٹائم دیکھا تو احساس ہوا کہ وہ لیٹ ہورہی ہے جلدی سے باہر بھاگی تاکہ جلدی سے رکشہ پکڑے اور اپنی منزل  پر پہنچ جائے۔

دوسری طرف ہادی بھی بسمہ سے ملنے کے لیے بے تاب تھا ہادی کی آنکھوں اور چہرے پر ایک کشش تھی۔ وہ شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر بڑا دل لگا کر تیار ہو رہا تھا ہادی نے پرفیوم لگایا اور میز پر پڑی گاڑی کی چابی کو اٹھایا اور گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ہادی تیز گاڑی چلاتے ہوئے باغ کی طرف روانہ تھا۔

اچانک ہادی نے ایک انسان کو سڑک کراس کرتے ہوئے دیکھا جو آنکھوں سے نابینا تھا۔ہادی نے اپنی گاڑی سائیڈ پر لگائ اور اس نابینا انسان کو روڈ کراس کروانے کے لیے اپنی گاڑی سے اترا کہ اچانک سامنے سے ٹرک آ یا اور ہادی کو اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا لے گیا۔

اچانک ایک رکشہ وہی آ کر روکا جہاں آکسیڈینٹ ہوا تھا۔

چچا یہاں اتنا رش کیوں ہے مجھے دیر ہورہی مجھے باغ میں پہنچنا ہے۔ بیٹا یہاں کسی کا اکسیڈینٹ ہوا ہے اس لیی رش ہے نجانے کب ختم ہوگا۔

ٹھیک ہے چچا آپ یہ پیسے پکڑیں میں پیدل ہی چلی جاٶں گی۔لیکن بیٹا۔۔۔۔بسمہ نے مزید بات نہ سنی اور رکشہ سے اتر گٸ اچانک اس کے قدم وہاں رکے جہاں ہادی کا ایکسیڈینٹ ہوا۔ وہ لوگوں کو پیچھے کرتی ہوٸ آگے بڑھ رہی تھی جہاں لوگ ہادی کے اردگرد جمع تھے۔آخر اسکی نظر ہادی پر پڑی جہاں وہ بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔

بسمہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگۓ اور باگتے ہوۓ ہادی کو اپنے بازٶں کے حصار میں لیا۔ہادی مکمل طور پر اس کی دسترس ،اس کی رسائی میں تھا۔ اسے بے بسی کا احساس ہوا۔اسکی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔شدید خواہش ہوئی کہ اسے ساتھ لگا کر بھینچ لوں۔ بہت زور سے۔اتنا زور سے کہ وہ مجھ میں مدغم ہو جائے اور ہم ایک وجود بن جائیں۔جو ایک وجود تشکیل پائے وہ اسکا ہو یا میرا ، یہ میرے لئے قطعی اہم نہیں تھا۔بس وہی ایک جسم ہم دونوں ہوں۔

وہ چینخ چینخ کر ہادی کو پکار رہی تھی۔ہادی نے بسمہ کی آواز کو محسوس کرتے ہوۓ آنکھوں کو کھولا اسے بسمہ کا دھندلا چہرہ دکھاٸ دیا۔ ہادی کی آنکھوں میں نمی تھی اسنے اسکا مکمل چہرہ دیکھا جو آنسوٶں سے تر تھا۔ بسمہ اور ہادی نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ وہ ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن کو محسوس کر رہے تھے۔ اس ایک لمحے کو محسوس کرتے ہوۓ ہادی نے اسکے بازٶں کے حصار میں دم توڑ دیا۔ بسمہ کو کائنات رکی ہوئی ، وقت تھما ہوا، آسمان جھکا ہوا، متوجہ اور زمان و مکان ساکت و حیران لگ رہے تھے۔

بسمہ کا وجود اب کھوکھلا ہو چکا تھا آنسوؤں سے بھرے گلابی گال اس شہزادی کے ایسے تھے جو کسی دیو کی قید میں ہو پر یہ شہزادی رہائی کے لئے کسی شہزادے کی اب منتظر نہ ہو۔ 

اچانک اسے آذان کی آواز سناٸ دیتی ہے اور وہ اپنی ماضی کی تلخ یاد سے باہر آتی ہے۔ اسکو اپنا وجود ہادی کی محبت میں قید لگ رہا تھا ایسی قید جس کی رہائی صرف موت ہے۔

 وہ اداس چہرہ،بے رونق آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے لیے ہوۓ آج بھی ہادی کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔

********************************

No comments