پستی میں گرتے ہوئے مسلمان ازقلم ارم ناز


 *پستی میں گرتے ہوئے مسلمان*

(ارم ناز(کھنڈہ، صوابی

پچھلے دنوں یعنی 25 دسمبر سے پہلے اور 25 دسمبر کے دن ساری دنیا میں خاص طور پے مسلمان ممالک اور ان میں بستے مسلمانوں میں ایک عجیب سی ہلچل، جوش و جذبہ اور نجانے کس بات کی خوشی کا ایسا گرما گرم سماں بندها دیکھا کہ جسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا، عقلِ ناقص اور بے نور سی آنکھیں ابھی تک انہی مناظر کو یاد کرتے اور مسلمانوں کو نظروں سی گرتے اور دل سے اترتے ہوئے دیکھ کر اور محسوس کر کے ویسے ہی سوچوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور جو ہو رہا ہے کیا وہ سچ میں ہی ہو رہا ہے یا یہ آنکھوں کا دھوکہ ہے لیکن کاش یہ دھوکہ یا صرف ایک ڈراؤنے خواب و خیال سے زیادہ کچھ نا ہوتا تو میں تعوذ و تسمیہ کا ورد کر کے اور بار بار کر کے اس خواب و خیال کے پیدا ہوتے برے اثرات سے چھٹکارا پا لیتی لیکن بات پھر وہی ہوئی نا کہ کاش یہ سب ایک خواب ہی ہوتا۔

25 دسمبر کو سوشل میڈیا پے گردش کرتی کرسمس کی مبارکبادوں کی تصاویر، اس میں مسلمانوں کی بِلا جھجک شرکت اور کیک کٹنگ سرمنیذ میں ہمارے نام نہاد علماء کا چھری پکڑ کر کیک کاٹتے ہوئے ہنستے مسکراتے اور خوشی سے بھرپور تاثرات دیکھ کر اور ان تصاویر پر عام عوام کی طرف سے بہت خوب، واہ جناب، شاباش اور مبارکباد سے بھرے پڑے کمنٹس پڑھ کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا کہ ہم مسلمان اپنے دین، اپنے مذہب، اللّه تعالیٰ کے احکامات اور اپنے پیارے نبی حضرت محمّد ﷺ کی سنّت سے اس قدر دور اور بےخبر ہو چکے ہیں کہ جسٹ فن اور جسٹ چِل کے نام پے اپنے مذہب کا مذاق بنائے ہوۓ ہیں۔کرسمس جو کے دراصل غیر مسلموں کا ہی تہوار ہے لیکن غیرمسلموں میں اسقدر گرم جوشی شاید ہی دیکھنے کو ملی ہو جس قدر کہ مسلمان ممالک اور خاص طور پر مسلمانوں میں دیکھی گئی۔

جی بالکل وہی مسلمان جناب جو اپنے مذہبی تہواروں میں آرام سے اپنی نیندیں پوری کر رہے ہوتے ہیں اور جو یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ آج کل عیدوں کا وہ مزہ نہیں رہا جو ہمارے بچپن میں ہوا کرتا تھا، تو میں ان سے یہی کہنا چاہوں گی کہ جب منانے والے ہی سوئے پڑے رہیں گے تو عید میں مزہ کہاں سے آئے گا؟؟

یہی وہ لوگ ہے کہ جو اپنے تہواروں پے تو گھروں سے باہر نہیں نکلتے یہ سوچ کر کہ یہ ہمارا مذہبی تہوار ہے اور بھائی چارے کا پیغام ہے تو چلو دوسرے مسلمان بھائیوں سے عید مل کر ان کی اور اپنی خوشیوں کو دوبالا کر دیتے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو اسلامی تہواروں پے انسانیت کا خیال آتا ہے جو اصل میں ہی انسان اور انسانیت سے محبّت کا پیغام دیتے ہیں۔لیکن جب بات آتی ہے کرسمس یا دیوالی وغیرہ جیسی غیرمسلم تہواروں کی تو یہ نام نہاد مسلمان گھروں سے بھی نکل آتے ہیں ان کی خوشیوں میں شامل بھی ہوتے ہیں اور انہیں مبارکباد دیتے بھی نہیں تھکتے اور جب انہیں ان سب سے یہ کہہ کر روکا جاتا ہے کہ یہ سب حرام ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ یہ حرام نہیں بلکہ یہ تو انسانیت کا انسانیت کے لئے پیار و محبّت، یکجہتی اور مذہبی رواداری کا اظہار ہے، ہم اس تہوار کو منا کر عیسائی اور ہندو برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ان کی خوشی میں خوش ہیں، ہک ہا یہ انسانیت!!

جب ان لوگوں سے کہا کہ یہ گناہ ہے اور اسلام میں حرام ہے تو بولے آپ جیسوں کو اسلام صرف ایسے ہی موقعوں پے کیوں یاد آجاتا ہے، ویسے تو آپ سب کو گناہ کے دوسرے کام کرتے وقت اسلام یاد نہیں آتا۔

یہ سب سن کر یقین مانے دکھ، افسوس، حیرت اور ان کے ڈھیٹ پنے پر غصہ بھی بہت آیا لیکن یہ جو ہمارا پیارا اور کامل مذہبِ اسلام ہے نا اس نے ہمیں مذہب کے خلاف غلط بولنے والوں کے ساتھ بھی نرمی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ہر حال میں بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوۓ تحمل سے پیش آنے کی تلقین کی ہے تو اس لئے غصے پے تو قابو پا لیا لیکن دکھ اور افسوس کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ میں نے عرض کیا "کہ جناب بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے کہ ہم لوگ کرتے ہیں گناہ کبهی کبهی نہیں بلکہ روز ہی کرتے ہیں اور میں تو خود ایک بہت بڑی گناہگار اور خطاکار ہوں لیکن کیا کرے کہ ہم عام سے انسان ہے ہم کامل نہیں بن سکتے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور کامل تو بس اللّه کی ذاتِ بابرکت ہے اور اللّه کے بعد ہم سب کے پیارے نبی اور اللّه تعالیٰ کے محبوب رسول حضرت محمّد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہی ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی مکمل اور کامل نہیں ہے ہم سب ہی میں کوئی نا کوئی کمی موجود ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں ہے نا کہ اگر ہم لوگ کوئی ایک گناہ کرتے ہیں تو باقی گناہوں کے کاموں میں بھی حصّہ لینے لگے کہ بھئی گناہ تو کرتے ہی ہیں تو کیوں نا ہر گناہ کرنے لگ جائے جب کہ ہمیں پتہ بھی ہو کہ یہ گناہ باقی گناہوں یعنی شراب نوشی، زنا اور قتل جیسے بڑے بڑے گناہوں سے بھی زیادہ بڑا اور ناقابلِ معافی گناہ ہے۔

تو پھر ہوا وہی ہو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی مجھے اس جواب کے بدلے میں یہ سننے کو ملا کہ چھوڑئیں محترمہ ہم مذہب پے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہر شخص کا اپنا الگ عقیدہ اور اپنا مختلف نظریہ ہوتا ہے۔ان کی بات سن کر میں نے عرض کیا کہ جناب اگر ہم ہی چھوڑ دیں گے تو پھر "امر بالمعروف ونہی عن المنکر" کون کرے گا؟؟؟

خیر ان کی اس بات کہ"ہم مذہب پے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے" سے ہی مجھے مسلمانوں کے آج اس پستی کی طرف سفر کرنے کی وجہ سمجھ میں آگئی کہ آخر کیوں ہم روز بروز پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔

اور وہ وجہ یہی ہے کہ آج کل ہم یعنی کہ مسلمان مذہب پے بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔جہاں بھی کوئی ایسی بات زیر بحث آتی ہے تو لوگ یا تو اسلام کے بارے میں کم علم رکھنے کی وجہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور یا اسلام کے خلاف اور ان غیر مسلم تہواروں کے حق میں بول کر آخر میں یہی کہہ دیتے ہیں کہ ہم اسلام کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ارے میں پوچھتی ہوں کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ بحیثیت مسلمان اگر ہم نہیں کرنا چاہے گے تو پھر اور کون کرے گا؟ کون ہو گا پھر وہ جو ہمیں ہماری قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس بدعت سے بچائے گا؟؟

خیر وہ بحث زیادہ لمبی نہیں چلی لیکن بحیثیت ایک ادنیٰ سی لکھاری آج میں یہاں آپ سب قائرین کے سامنے اپنے دل کے اس دکھ اور اس افسوس کو الفاظ کا روپ دے کر ایک تحریر کی شکل میں آپ سب کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں جو 25 دسمبر یا اس سے پہلے غیر مسلموں کے تہواروں میں مسلمانوں اور خاص طور پر ہمارے نام نہاد علماء کو شریک ہوتے ہوئے اور خوشیاں مناتے ہوئے محسوس کیا جی ہاں علماء یعنی ہمارے مولوی حضرات جو ہم جیسے عام سے مسلمانوں کو دین و تبلیغ کا درس دیتے ہوئے ممبروں پے فرشتے بنے بھیٹتے ہیں۔میں آج ان سب سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر کس بات کے مولوی ہیں آپ سب؟ اور کس دین کی بات کرتے ہیں آپ لوگ؟ ارے جن کو یہ تک نہیں پتہ کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں حصّہ لینا اور ان کو یہ کہنا کہ آپ کو آپ کی عید مبارک ہو دراصل حرام فعل ہے۔ارے جو یہ تک نہیں جانتے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد  صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے غیر مسلموں کے تہواروں میں شریک ہونے والوں کے بارے میں آخر کیا ارشاد فرمایا ہے، آج وہ ہمیں دین سکھا رہے ہیں جنہیں دراصل خود قرآن اور احادیث مبارکہ کی تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہی وہ لوگ ہے جو اللّه والے بنے ممبر پے براجمان جب اللّه اور رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے احکامات اور سنّت کی باتیں کرتے ہیں تو لوگ انہیں اللّه والا سمجھ کر ان ہی کے بتائے ہوئے اور کئے ہوئے پر عمل کرنے لگ جاتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں جب مولوی حضرات یہ سب کرتے ہیں تو یقیناً یہ جائز ہی ہو گا۔یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ اندھے کی تقلید کرتے کرتے کھائی میں جا گرے تو بس آج کل اندھی تقلید ہی کا دور دورہ ہے اپنے دل و دماغ سے سوچ بچار کرنے کے زمانے تو کب کے گزر چکے جناب۔

یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تقاریب میں حصّہ لینا جائز نہیں بلکہ حرام ہے تو وہ ہمیں اور ایسا کہنے والے باقی لوگوں کو کہتے ہیں ارے کیا ہو گیا ہے جناب be mature یار اس عمر میں اتنی کچی اور نیچ سوچ وہ بھی اکیسویں صدی میں یعنی کہ حد ہے۔

تو میں ان سب کو یہی کہنا چاہوں گی کہ mature مجھے نہیں آپ کو بننا ہو گا کیونکہ جب ہم، آپ اور سب سے بڑھ کر خدائے واحد و لاشریک نے ہی غیر مسلموں کو غیر مسلم قرار دیا ہوا ہے تو پھر ان کے مذہبی تہوار جن کے ہم خلاف ہے جو ہم سب جانتے ہیں کہ غلط ہیں جو شرک ہیں تو پھر اس میں حصّہ لینا، اس میں شریک ہو کر ان کو مبارکباد دے کر آپ کیا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نعوذُ بااللّٰہ وہ حق پر ہیں؟؟ کیا ہے کوئی جواب آپ سب کے پاس یا یہاں بھی کہے گے کہ ہم مذہب پے بات نہیں کرنا چاہتے؟؟

ایسے لوگ جو مذہب سے زیادہ اپنے fun اور chill کو اہمیت دیتے ہیں، جو خود اسلام کا مطالعہ نہیں کرتے، جنہیں یہ واضح سی بات بھی نہیں پتہ کہ جب عیسائی یا ایسی اور غیرمسلم قومیں انہی عقائد کی وجہ سے غیر مسلم، کافر اور اسلام سے خارج کہلائے جاتے ہیں تو جب وہ انہی عقائد کی بنا پر ان عقائد کی ترویج کرتے ہوئے ایسے تہوار مناتے ہیں تو اس میں حصّہ لینے اور انہیں مبارکباد دینے کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ آپ انہیں صحیح ثابت کر رہے ہیں اور شرک کا ساتھ دے رہے ہیں۔

ایسے لوگوں کو جب ہماری عام سی باتیں سمجھ نہیں آتی تو وہ ہمیں چپ کروانے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ یہ باتیں دلائل سے ثابت کریں کہ اگر یہ غلط ہے تو۔جیسا کے میں نے بتایا کے ایسے لوگوں کے لئے یہ سب chill اور fun parties بہت اہمیت رکھتی ہے اور وہ کسی بھی صورت اس سے دستبردار ہونا نہیں چاہتے تو پھر وہ قرآن و حدیث کا حوالہ مانگ کر سمجھتے ہیں کہ اب ہم چپ کر جائے گے کیونکہ ان کا تو یہی ماننا ہے نا کہ قرآن و حدیث میں اس حوالے سے کچھ ہے ہی نہیں لیکن وہ کیا جانے کہ ہمارا قرآن تو ایک مکمل پیکج ہے جس میں زندگی سے متعلق ہر پہلو کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔

تو یہاں میں قرآن و حدیث سے چند دلائل پیش کرنا چاہوں گی تاکہ سب نہیں تو کم سے کم میرے کچھ مسلمان بھائی اور چند مسلمان بہنیں ہی اس حرام کام سے رک جائے۔

* حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ "جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ ان ہی میں سے ہو گیا"

یعنی جو شخص (مسلمان) دوسری اقوام یعنی کافروں کے لئے قلبی میلان رکھے، ان کی عادات اپنائے، ان کی نقالی کرے، ان کے تہواروں پر انہیں برکت کی دعا دے یعنی مبارکباد دے، ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرے اور ان کے تہواروں میں شامل ہو کر خوشیاں منائے وہ دراصل اسلام سے خارج ہے اور انہی قوموں کا حصّہ ہے جن کی وہ مشابہت اختیار کرتا ہے۔

یہاں میں غیر مسلموں کی تہواروں  میں شرکت کرنے کی حمایت کرنے والوں سے پوچھنا چاہوں گی کہ "کیا کبهی آپ نے کسی غیر مسلم یعنی عیسائی یا یہودی وغیرہ کو عید الاضحیٰ میں جانور ذبح کرتے دیکھا یا انہیں تکبیر تشریق پڑھتے سنا؟؟ کیا آپ نے کبهی کسی غیر مسلم کو رمضان المبارک میں صرف اس لئے روزے رکھتے دیکھا کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے مسلم برادری روزے رکھتے ہیں تو ہم بھی ان کو یکجہتی اور محبّت کا پیغام دیتے ہوئے روزے رکھے گے، ہاں بتائے سنا یا دیکھا کبھی؟؟؟

نہیں نہ؟ کیا آپ جانتے ہیں ایسا کیوں نہیں دیکھا اور سنا آپ نے؟

کیونکہ وہ ہمیں اور ہمارے سچے دین یعنی ہمارے کامل مذہب اسلام کو نہیں مانتے اس لئے اس کے احکامات یا مذہبی تہواروں کو منانا نعوذبااللّٰہ گناہ سمجھتے ہیں، جبکہ ہم مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں ہم کہی تو کیک کاٹ رہے ہوتے ہیں تو کہی ان کے ساتھ مل کر ان کے مذہبی گیت گا رہے ہوتے ہیں تو کبهی ہمارے اداکار اور اداکارائیں دیوالی پارٹیز میں ماتھے پر لال ٹیکے سجائے love for india کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ بھی بڑے فخر سے سینہ چوڑا کرتے ہوئے۔

اور کسی کے پوچھنے پر کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور کس مقصد کے تحت تو بہانہ بھی کیا کمال ہے کہ یہ مذہبی رواداری ہے جبکہ یہی لوگ مذہبی رواداری کا مفہوم تک نہیں جانتے۔جو اصل میں یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان کو ان کے حقوق کے حوالے سے تنگ نہ کیا جائے لیکن ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنا مذہبی رواداری نہیں بلکہ ان سے مشابہت اختیار کرنا ہے جس کے بارے میں حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ "ایسا شخص ہم میں سے ہے ہی نہیں"۔

° قرآن کریم فرقان حمید سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ:

ترجمہ؛

 اگر تم کفر کرو تو بیشک اللّه تمہارا محتاج نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم اس کا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے یہاں پسندیدہ عمل ہے۔

°اسی طرح حضور پاک ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقعے پر ارشاد فرمایا!

ترجمہ؛ 

آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتيں مکمل کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

° ایک اور جگہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فرماتے ہیں کہ:

ترجمہ؛

اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیادہ سزا پانے والوں میں سے ہو گا۔

° ابن قیم رحمتہ اللّه علیہ فرماتے ہیں کہ؛ 

غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کرنا زنا، قتل اور شراب نوشی سے بڑا گناہ ہے۔

(احکام اہل الذمہ 3/ 211) 

° اسی طرح ذہبی فرماتے ہیں کہ؛

جس طرح مسلمان غیر مسلموں کا قبلہ اور ان کی شریعت نہیں مانتے بالکل ایسے ہی انہیں چاہیے کہ ان کے تہواروں میں شرکت بھی نہ کرے کیونکہ یہ حرام ہے۔

(مجلہ الحکمہ "شمارہ نمبر 4" صفحہ نمبر 193)

ان آیات اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی حمایت کرنے والا، غیر مسلموں کے تہوار منانے والا یعنی ان کی مشابہت اختیار کرنے والا اسلام سے خارج ہے اور قیامت کے دن وہ سب سے زیادہ سزا پانے والوں یعنی کافروں اور مشرکین کے ساتھ ہو گا کیونکہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہے اور یہ حرام بھی اس لئے ہیں کہ اوّل تو وہ شرک کرتے ہیں جس کی حمایت کسی بھی لحاظ سے معافی کے قابل نہیں اور دوسرا یہ کہ اس میں کفار کی کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے اور کفار سے اس عمل پر اظہار رضامندی بھی، جو سنگین گناہ ہے کیونکہ اس طرح بسااوقات شرکت کرنے والا کفر میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

اس لئے بطور مسلمان میری آپ سب قائرین سے التجا ہے کہ خدارا خود کو پہچانے، اپنی قدر و منزلت کو جانے کہ آپ اصل میں ہیں کیا؟ ارے آپ تو وہ خوش نصیب ہیں جو حضور ﷺ کی امّت میں پیدا ہوئے اور ہمیں ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ حضور ﷺ کے امتی ہو کر ہم ان کی سنت اور ان کے بتائے ہوئے احکامات سے روگردانی کرے۔سوچئے اور سمجھئے کہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سنّتوں پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا اور آخرت میں اعلیٰ مقام کے حقدار بن سکتے ہیں وگرنہ جہنم ہی ہمارا ٹھکانہ ٹھہرا دیا جائے گا اور بس پچھتاویں ہی مقدر کا حصّہ بنے گے۔

تو آئیے ہم سب مل کر اسلام اور اسلام کے احکامات کو اپنا کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کا سامان کریں تاکہ بروز قیامت اللّه اور اپنے پیارے نبی حضرت محمّد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے سامنے شرمندگی سے بچ سکے اور حضور ﷺ ہم پر فخر کر سکے اور اللّه تعالیٰ ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمائے إنشاءاللّه۔

والسلام!!

1 comment: