Kashmir ka Beta by Rakhshnda Baig
عنوان :کشمیر کا بیٹا
مصنفہ :رخشندہ بیگ
کراچی
”بھاٸی جان مجھے اجازت دیجٸیے ,آج رات اس کتے میجر رامیش کی اس وادی جنت نظیر کشمیر میں آخری رات ہو گی ,یہ میرا آپ سے اور اپنے آپ سے وعدہ ہے ۔دعا کرٸیے گا آپ کا یہ شیر اس مشن میں کامیاب ٹہرے یا پھر شہادت کا تاج سر پر سجاٸے اپنے رب کے آگے سرخرو ہو جاٸے ۔“
میں نے آگے بڑھ کے ہمت وعزم کے پیکر شیر دل عبدالعزیز کو گلے سے لگا لیا ,اس کے سر اور ماتھے پر بوسہ ثبت کرتے میرا سر فخر سے بلند ہو چکا تھا آزادی کشمیر کی راہ میں سر سے کفن باندھے نکلنے والے اس مجاہد سے میرا کوٸی خون کا رشتہ نا ہوتے بھی ایک بہت گہرا تعلق تھا ,میں نے اسے گلے سے لگا کر رخصت کیا اور اس کے مضبوط قدموں کی دھمک مجھے ماضی میں لے گٸی ۔
وہ بھی اسی طرح کے ظلم وستم کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ایک دن تھا میری جنت نظیر وادی میں اس دن بھی چنار سلگ رہے تھے ,ہر طرف کرفیو لگا ہوا تھا بھارتی درندے فوجی وردیوں میں بربریت کی داستانیں رقم کر رہےتھے ,پوری دنیا ,پورا عالم اسلام اس وقت بھی چپ کی بکل مارے دبکا پڑا تھا ۔
وحشت وبربریت کا کھیل پورے زوروشور سے جاری تھا ,ایک طرف جدید اسلحے اور اختیارات سے لیس بھارتی فوجی اور دوسری طرف نہتے اور بے بس کشمیری عوام طاقت کا کوٸی توازن ہی نا تھا ۔
میں ان دنوں کالج کا طالب علم تھا ,اور اس ظلم وجبر کے خلاف نیا نیا ہی تحریک میں شامل ہوا تھا ۔انہی دنوں ہمیں سری نگر کے قریب ہی ایک گاوں میں بھارتی فوج کی وحشیانہ کارواٸی کی اطلاع ملی ,میں چند مجاہدین کے ساتھ جب وہاں پہنچا تو درندے اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے ,ہرجانب ایک سکوت طاری تھا طوفان سے پہلے کا یا پھر موت کا !! ہم افسردہ سے مسجد کی جانب بڑھ گٸے ,جہاں مجھے عبدالعزیز ملا ایک خط ہاتھ میں تھامے روتا ہوا اللہ تعالی سے محو گفتگو ۔۔۔۔میں نے آگے بڑھ کے اسے سینے سے لگایا اور اس کے ہاتھ میں تھامے خط کو لے لیا ,اس نے اپنی آنسو بھری آنکھوں میں امید کے جگنو بھر کے مجھ سے سوال کیا ,”بھاٸ جان آپ میرا یہ خط اللہ تعالی تک پہنچا دٸیں گے ؟“اور میں نے اثبات میں سر ہلا کے اسے سینے سے لگا لیا ۔
وہ خط کیا تھا نوحہ تھا کشمیر کا , نوحہ تھا معصوم کلیوں کا ,نوحہ تھا یتیمی کا ,نوحہ تھا بےبسی کا ۔جو میں نے پڑھا ,اس میں لکھا تھا ۔
”پیارے اللہ تعالی جی, پتا نہیں میں آپ کو یاد ہوں یا نہیں ؟شاید میں آپ کو یاد نہیں رہا !اسی لئے آج میں آپ کو خط لکھ کر یاد دِلا رہا ہوں ۔“
"میں عبدالعزیز ہوں " وہی عبدالعزیز جب میں آپ کے کرم اور عطا کے طفیل اس دنیا میں آیا تو مجھے دیکھ کر اور پاکر میری ماں اور باپ دونوں نے آپ کے آگے سجدہ شکر ادا کیا تھا ۔“
”کیا آپ کو وہ سجدہ شکر یاد ہے پیارے اللہ تعالی جی ؟“
” جب میری چھ سالہ اور چار سالہ آپیوں نے اپنے ننہے ہاتھ اٹھاکر آپ کا بہت شکریہ ادا کیا تھا کہ ان کے پاس بھی ایک بھائی پیارے سے گڈے کی شکل میں آگیا تھا “
”آیا نہ یاد آپ کو !!جب میں چار سال کا ہوا تو میری رسم بسم اللہ ادا کی گئی اور مجھے قرآن پاک کی تلاوت کروائی گئی ,میری ماں نے اس دن مجھے بڑے اچھے اپنے ہاتھ سے سلے ریشمی کپڑے پہنائے تھے۔“
” میری دونوں بہنیں بھی بہت خوش زرق برق کپڑوں میں رنگین حجاب پہنے تتلیوں کی طرح اڑتی پھرتی تھیں ۔“
”اور پھر اچانک چاروں جانب سے وہی منحوس آوازیں آنا شروع ہوگئیں ،جو میں نے ہوش سنبھالتے ہی سنی تھیں، جب یہ آوازیں گونجتی تھیں تو ضرور وادی میں کئی بے گناہ اپنے ہی لہو میں نہا کر اس مٹی کا قرض چکاتے تھے ,اور ۔۔۔۔۔اور پھر میرے پیارے بابا جو سفید براق کپڑوں میں باہر گئے تھے سرخ خون کی چادر سے ڈھکے گھر لائے گئے ۔“
"پیارے اللہ جی "ابھی تو میں نے باپ کی شفقت محسوس کرنی شروع کی ہی تھی, ابھی تو احساس کے در وا ہونے شروع ہوئے ہی تھے ,میرے پیارے گھر میں صف ماتم بچھ گیا ۔“
”میری ماں کی کلائیاں سونی ہو گئیں اور بہنوں کی شرارتیں اور مسکراہٹیں کہیں گم ہو گئیں ,اور "پیارے اللہ تعالی جی "اس کے کچھ ہی عرصے بعد ہمارے گھر پہ ایک اور قہر ٹوٹ گیا ,کچھ درندے وردیوں میں ہمارے گھر میں گھس آئے اور میری معصوم نو خیز کلیوں جیسی بہنوں کو گھسیٹ کر لے گئے ,ان کی دردناک چیخیں آسمان بھی ہلائے دے رہی تھیں۔“
”تو کیا وہ آوازیں آپ نے سنی تھیں اللہ تعالی جی ؟؟؟ہاں وہ تو آپ نے ضرور سن لی ہونگی آپ بھی تو اوپر آسمان پر ہی رہتے ہیں نا ؟“
”میری فرشتوں جیسی بہنوں کی دلخراش چیخوں کی گونج سے وادی بھی تھرا اٹھی تھی۔۔۔۔۔۔اور دوسرے دن ان کے کٹے پھٹے اور نوچے گھسوٹے جسموں کی باقیات ملی تھیں۔ “
”تب سے میری ماں کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے وہ کچھ بھی نہیں بولتی “ "اللہ تعالی جی "وہ کچھ بھی نہیں بولتی ،میری کسی بات کا جواب نہیں دیتی ۔" اللہ تعالی جی " اب تو آپ کو یاد آگیا ہوگا میں کونسا عبدالعزیز ہوں۔ “
”بس آپ اب مجھے اور میری ماں کو بھی اپنے پاس بلا لیں میرے دوست کہتے ہیں کہ میرے بابا اور بہنیں آپ کے پاس ہیں ,پھر میں عبدالعزیز اور ماں یہاں کیا کریں “؟"بتائیں نا پیارے اللہ تعالی جی بتائیں نہ "؟
اس دن سے میں نے اس بچے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا ۔اور وقت کا سفر طٸے کرتے آج وہ کمزور عبدالعزیز ایک جی دار مجاہد میں بدل چکا تھا ۔جس کے نام سے ہی بھارتی فوجیوں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے ۔بہت سے معرکے سر کرنے والا بہادر ہماری تحریک آزادی کا فخر تھا ۔
اس کے گھر پر قہر بن کے ٹوٹنے والا اور معصوم کلیوں کا قاتل رامیش اگروال ترقی کرکے میجر کے عہدے پر پہنچ چکا تھا ۔کٸی سالوں بعد اس کی دوبارہ کشمیر میں پوسٹنگ ہوٸی تھی ,ہماری معلومات کے مطابق وہ مزید طاقت اور پوری درندگی کے ساتھ وادی میں اترا تھا ,مگر آج اس کا سامنا شیر دل عبدالعزیز سے تھا جو پورے عزم وہمت سے اس کے اگلے پچھلے حساب چکتا کرنے شہادت کے جذبے سے سرشارسر سے کفن لپیٹے اس کو جہنم واصل کرنے نکل چکا تھا ۔
فضاء اللہ ھو اکبر کی صداوں سے گونج رہی تھی کشمیر کا ہر بیٹا اپنی ماں وادی جنت نظیر کشمیر پر جان وارنے اور آزادی حاصل کرنے کے لٸے تیار تھا ۔
ایک موج مچل جائے تو طوفان بن جائے
ایک پھول اگر چاہے گلستان جائے
ایک خون کے قطرے میں ہے تاثیر اتنی
ایک قوم کی تاریخ کا عنوان بن جائے
************************
Best poetry kashmir ka beta
ReplyDelete