خاموشی ازقلم ضحی شبیر


 خاموشی 


بہت وقت سے خاموش ہوں

کبھی خاموش رہنے کی وجہ یہ نہیں رہی کہ کہنے کو الفاظ نہیں یا جملوں نے ساتھ چھوڑ دیا ہے.

میں وہ سب سیکھنے کے لیے خاموش رہی جو میں بولتے ہوئے کبھی نہیں سیکھ پائی

خاموش رہ کر میں نے انسان کی اوقات کو معلوم کرنا چاہا. پتا چلا جب تک ہم  لوگوں میں موجود ہیں   ان کو ہم  یاد ہیں. جب ہم  لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے تو وہ ہمیں اپنی زندگی سے یوں باہر نکال دیں گے جیسے کبھی ہم  تھے ہی نہیں.

مٹی سے بن کر  مٹی ہونے تک کے سفر کے درمیان ہم خاص بنتے ہیں پھر خاک بن جاتے ہیں.

یہ کہانی اس فانی دنیا ہے.

مگر اک اور دنیا ہے جہاں مٹی سے بن کر مٹی ہونے تک ہم خاص رہتے ہیں. جہاں ہر پل ہمارے پلٹ آنے کا انتظار ہوتا ہے. جہاں سیکنڈ کے ہزاروں حصے میں بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑا جاتا ہے. ہماری آنکھوں کے نم ہوتے ہی محبت کے جہاں میں لے جا کر خاص ترین بنا دیا جاتا ہے. جہاں ہم ابھی  قدم اٹھاتے ہیں اور وہ میلوں کے راستے سمیٹ کر اپنا اور ہمارے درمیان بس  ایک قدم کا فاصلہ بنا دیتا ہے ہم تھک نہ جائیں.

ہم زمین میں جھک کر اس کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ساتواں آسمان کے اوپر نورانی مخلوق میں ہمارا  تذکرہ کر کے  انمول بنا دیتا ہے. 

خاموش رہیں یا بولتے رہیں ۔لکھتے رہیں یا انگلیوں کو روک کر لکھنے سے دور رہیں.۔

"اللہ"  عام ہونے نہیں دیں گے. 

خاموشی پھر یہ سبق سیکھا دیتی ہے خاک سے خاک ہونے تک پھر خاک سے اٹھنے تک خاص ہی رہو. ایسے خاص کی طلب چھوڑ دو جو کچھ عرصہ کی خاموشی میں ہمیں عام کر دے. ایسے محفل میں نہ رہو جہاں تمہاری نہیں تمہارے  بس کسی صلاحیت کی اہمیت ہو. کیوں کہ صلاحیت تم سے ہے. تم صلاحیت سے نہیں.


ضحی شبیر

No comments