میڈیا کی اندهی تقلید اور نسل نوع ازقلم آمنہ نثار
"میڈیا کی اندهی تقلید اور نسل نوع "
حال ہی میں لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں لڑکی لڑکے کا پروپوز کرنا، پھول پیش کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا اسلامی تعلیمات سے دوری اور اور میڈیاکی اندهی تقلیدکا نتیجہ ہے
ناجانے کتنے ہی والدین ایسے واقعات کے بعد بچیوں کو یونیورسٹیوں میں بھیجنے سے خوفزدہ ہوں گے.....تعلیمی اداروں میں یہ بے حیائی دیکهنے کے بعد ناجانے کتنی بجیوں کے بھرے ہوئے داخلہ فارم والدین کے کانپتے ہاتهوں میں ہی رہ جائیں گے لیکن وہ ان داخلہ فارم جمع کروانے کی ہمت خود میں نہیں پائیں گے ... تب ناجانے کتنی آنکهوں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ،چمکتے خواب ادهورے رہ کر ان کی زندگیوں کو ادهورا کر دیں گے
تعلیم کے حصول کا مقصد شعور حاصل کرنا نہ کہ بے حیائی کو فروغ دینا.....میڈیا کی اندهی تقلید ماڈرن ازم کے نام پر فحاشی و عریانی کی دعوت اور والدین اور اساتذہ کی تربیت پر سوالیہ نشان ہے
ڑرامے دیکهتے دیکهتے زندگی کو ڈراما اور خود کو کسی فلم کے مرکزی کردار سمجهنے لگتے ہیں.... افسوس ہماری تہذیب و تقافت کا ہمارے ڈراموں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں
آخر ہمارے ڑراما نگار معاشرے کو کیا رخ دینا چاہتے ہیں؟
میں اکثر سوچتی ہوں کیا ہمارے پاس نسل نوع کو بتانے کے لیے کچھ بهی نہیں ہے ؟
کیا ہماری تاریخ اور تہذیب اتنی کمزور ہے؟ نہیں ہمارے پاس اپنی تاریخ اور خوبصورت تہذیب ہے - جسے میڈیا ہمیشہ فراموش کرتا آیا ہے....شعوری یا لاشعوری طور پر بلکہ میں تو کہوں گی شعوری طور پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کی ایسی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی تہذیب اپنا لباس اپنی زبان کو کمتر جانتے ہوئے دقیانوسی خیال کرتے اور مغرب کی تقلید کرنا پسند کر رہے ہیں---
ہمارے ڑراموں میں میڈیا جنسِ مخالف کی محبت کو تو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے جن سے متاثر ہو کر نوجوان نسل ویسا ہی بننے کی کوشش کر رہی ہے ..... تو یہی میڈیا اولاد کی والدین سے اتنی محبت تو دکھا ہی سکتا ہے کہ بچوں کے کردار کی وجہ سے ان کے والدین کی تربیت سوالیہ نشان نہ بنے
خدا اور رسول سے محبت کا پودا تو لگا سکتے ہیں لیکن افسوس یہاں تو لگے پودوں کی جڑیں کهوکهلی کرنے کی سازش کی جا رہی ہے
یہاں ایک بات کا اضافہ چاہوں گی سب قصور میڈیا پر ڈالنا بهی کوئی حق بات نہ ہو گی ...بچوں کی تربیت گهر سے شروع ہوتی ہے جس میں ماں اور گهر کے ماحول کا اثر سب سے زیادہ شامل ہوتا ہے ....ضرورت اس امر کی ہے ہر انسان اندهیرے کو برا کہنے کے بجائے ہم اپنے اپنے فرائض ادا کریں ---بچوں کے ذہنوں میں ان کے دلوں میں اللہ اور رسول اللہ کی محبت ڈال دیں تاکہ دنیا کی تاریکی ان کے دلوں کو تاریک نہ کر سکے
مجهے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں جب ہم سکول کے لیے نکلتے تو امی کہتی تهیں کہ اپنے والد کی عزت کا خیال رکهیے گا جو کہ اس دنیا میں تو موجود نہیں لیکن آج بهی لوگ ان کا نام احترام سے لیتے ہیں-- شرم و حیا کا سبق گهر سے سیکھا جاتا ہے بعد میں پهر مکتب کا سفر طے کرتے ہوئے انسان قدم باقدم زندگی کی منزلیں عبور کرتا جاتا ہے اور بچپن کا یاد کیا سبق کبهی بولتا نہیں ہے ....وہ باتیں زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں جن سے زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی ملتی ہے.... آئیے زندگی کی ظاہری نمود ونمائش سے نکل کر حقیقی زندگی کو جانتے ہوئے فلاح کا راستہ اختیار کریں..وہ راستہ جو جنت کی طرف لے جائے (آمین)
No comments