بنت حوا کب تک درندگی کا شکار ہوتی رہے گی ازقلم جویریہ امانت

بنت حوا کب تک درندگی کا شکار ہوتی رہے گی

ازقلم: جویریہ امانت(سیالکوٹ) 

وطن عزیز کو آزاد ہوئے 73 برس ہو چکے۔ اور اس کو حاصل کرنے کا بنیادی مقصد تھا کہ ہم اپنی ایک الگ ریاست بنائیں جہاں ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں، آزادی سے رہیں اور جہاں ہماری عزتیں پامال نہ ہوں۔آج جب ہم نے وطن حاصل کر لیا اسلامی تعلیمات کے لیے آزادی بھی حاصل کر لی، اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا تو لیا مگرانسانیت شرمندہ ہے! بنت ہوا کہیں یا صنف نازک یا بابا کی گڑیا، آج حوس اوردرندگی کاشکار بن گئی ہے۔ہر خبرایک زیادتی کی کہانی سنا رہی ہے، سن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نہ صرف جوان بچیاں بللکہ چھوٹی بچیاں، نازک کلیاں بھی اس ظلم کا شکار بن رہی ہیں اور بڑی بے دردی سے مسل دی جاتی ہیں، کہیں ننھی زینب حوس کا نشانہ بنی تو کہیں ننھی پری مروہ، کچھ مہینے قبل 3 سال کی گڑیا کو ظلم زیادتی کا نشانہ بنا کر دو درندوں نے چھری سے چیر کر مار دیا، بات یہی تک نہیں ایک 6 ماہ کی بچی کو بھی نہ چھوڑا، ایک بہن بھائی کے ساتھ جنگل لکڑیاں لینے گئی تو بھائی کو بے حوش کر کے بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جو چیخ خیخ کے بتاتے ہیں کہ اسلام کے نام پہ بنا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رو رہا ہے چیخ رہا ہے مائیں رو رہی ہیں باپ پھر سے بیٹی کو زندہ درگور کرنا بہتر سمجھتا ہے کہ یہ سانسیں درندے چھین لیں گے یہ عزت زیادتی کا نشانہ بن جائے گی، کمزور باپ کے بس میں ہو تو وہ آج بھی وہ رسم جاری کر دے بیٹی کو زندہ درگور کر دے، وہ ماں کے الفاظ یاد ہوں گے جس کی بچی کو تین درندے دو رات زیادتی کا نشانہ بناتے رہے بچی روتی رہی چلاتی رہی اور افسوس کہ اس ظلم کے ہماری ریاست شواہد مانگنے لگی اور ماں چیخ اٹھی کہ بیٹی انکو شواہد دکھاو کہ دو راتیں انسان کی شکل میں وہ تین جانور اور درندے تمہارے ساتھ کیا کرتے رہے ۔افسوس صد افسوس! کراچی میں 16 سالہ بچی کو کالج کے باہر سے اغوا کر کے 5 ملزمان نےزیادتی کا نشانہ بنایا اور دل دہلا دینے والا بیان کہ بچی روتے باپ کو کہتی ہے بابا آپ نہ رونا، دل خون کےآنسو روتا ہےکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں جو اسلام کے نام پہ بنا۔حال ہی کا افسوس ناک واقع کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے پہ ایک ماں کو اسکے بچوں کے سامنے دو درندوں نے اپنی حوس کا نشانہ بنایا، قوم نے آواز اٹھائی کہ مجرم کو نامرد کیا جائے اور ریاست کو اُس پہ ترس آیا کہ نہیں یہ حسن زن کے خلاف ہے انسان کو ایسی تکلیف دہ سزا دینا مناسب نہیں۔کیا ایسے درندہ صفت لوگ انسان کہلانے کے اہل ہیں کہ ان پہ ترس کھایا جائے؟ جی نہیں۔ جناب سی سی پی او لاہور نے فرمایا کہ یہ فرانس نہیں جو عورت اکیلی آدھی رات کو نکلی جب محافظ یہ کہیں گے تو کس سے مدد کی انصاف کی امید رکھی جائے ۔یہاں آئے دن ایک بنت حوا کی لاش ویرانے سے مل رہی ہے اور جنابِ حکمران تو ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں جبکہ حالات ایسے ہیں کہ آگ برسے پتھر برسیں یا آسمان ٹوٹ کے گر پڑے ہم بس زندہ قوم ہیں۔ 

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والےایک غیر سرکاری ادارے 'ساحل' نے جاری کیے ہیں۔گذشتہ برس بچوں کے خلاف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے اُن میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔گذشتہ سال بھی بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بچوں کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد1765 ہے۔ 798اجنبی ، 589ا جنبی واقف کار، 76 رشتہ دار، 64 پڑوسی، 44 مولوی، 37 اساتذہ اور 28 پولیس والے بھی بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث تھے۔افسوس کا مقام کہ جانور بھی محفوظ نہیں اور یہاں تک کہ قبر میں بھی عورت محفوظ نہیں کیا وہاں بھی ساتھ محرم کو دفن کیا جائے جو عورت کی حفاظت کرے۔

آخر کب تک ہم کپڑوں کو میڈیا کو فحاشی کو یا ایسے درندوں کو ذہنی مریض کہہ کے خود کو آزاد خیال کہہ کے لاعلمی کا اظہار کرتے رہیں گے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں دینے میں مصروف ہیں کہ ہمارے دور میں ایسے کیس کم تھے اب زیادہ ہیں، اور ہمارے صوبے میں میں کم اور آپکے میں زیادہ ہیں وغیرہ وغیرہ ۔عزتِ مآب جنابِ حکمران! سینٹ کے انتخابات کو پاک، صاف اور شفاف بنانے کی تمام کوششیں بجا ہیں، منی لانڈرنگ اور کرپشن کا صفایا سب قابلِ تعریف ہےلیکن 22 کڑوڑ عوام آپکی طرف بڑی امید لیے دیکھ رہی ہے، سانحہ مچھ ہو یا اسامہ ستی قتل کیس یہاں ہر کوئی آپ سےاپنی عزت اور اپنی زندگیوں کی حفاظت مانگ رہا، اگر یہ بھی این آر او ہے تو دکھی انسانیت کویہ این آر او دے دیاجائے ۔

ریاست مدینہ نہ سہی ریاست پاکستان میں جینے کا حق دیا جائے ۔

 ہم باتوں کےقانون سخت سے سخت کر لیں یا گلی محلے کوچوں چوراہوں پہ کیمرے لگا دیں یا بچیوں کو چار دیواری میں بند کر دیں،یہ اشک بار واقعات کم نہیں ہونگے جب تک آپ مان نہ لیں کہ اسلام کے قوانین آپکے قوانین سے بہتر ہیں اور ان میں ہی ہماری فلاح ہے۔جب تک آپ ایسے درندوں کو عبرت کا نشان نہیں بنائیں گے اسکی سزا سنگسار کرنا رجم کرنا نہی رکھیں گے اسلام کے قوانین کو عمل میں نہیں لائیں گے یہ سب ہوتا رہے گا اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بس افسوس کرتے رہیں گے ۔اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے!

No comments