Umeed ki Kiran written by Javeria Amanat


 *اُمید کی کرن*

*جویریہ امانت*

میں اکثر سوچتی تھی کہ جب الله کریم کسی انسان پر اس کی سکت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر اکثر ایسے لمحات ہماری زندگیوں میں کیوں آتے ہیں جب انسان تھک کر ٹوٹ جاتا ہے۔دل تکلیف اور اذیت سے بھر جاتا ہے۔آنکھیں امید کی بینائی سے محروم ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی تمام تر رنگینیاں ختم ہو جاتی ہیں اور انسان کو اپنا آپ کسی بوجھ جیسا لگنے لگتا ہے۔لیکن اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہےالله اپنے خاص بندوں کو چننے کے لیے ان پر آزمائش بھیجتا ہے۔وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اس کی محبت میں صبر کے آخری پیمانے تک جا پہنچتا ہے۔کون سخت اذیت اور تکلیف میں بھی اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے۔ کون اس کی چاہت کے لیے اپنی چاہت تک قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ آزمائش محبت ہی کا پیمانہ ہے۔

ہم انسان بہت ناشکری مخلوق ہیں کبھی حاصل کے لیے روتے ہیں کبھی لاحاصل کے لیے۔اللہ پہ توکل بھی رکھتے ہیں ہمت بھی چھوڑ دیتے ہیں اور کامیاب وہی ہوتا ہے جو رب العالمین پہ بھروسہ رکھتا ہے اسکی حکمت عملی پر یقین رکھتا ہے۔میں یہاں ذکر کروں گی ایک لڑکی کا۔ایک لڑکی! جیسے کوئی خوبصورت سی تتلی ہوکوئی چہکتی چڑیا ہو دور آسمانوں تک اڑناجانتی ہوجوخودکو بڑے بڑے خواب دیکھاتی تھی جیسے دنیا کا زاویہ ہی بدل کہ رکھ دے، خوابوں ارادوں کی مظبوطی کی یہ مللکہ اپنے امی ابو کی اکلوتی بیٹی اور دو بھائیوں کی شہزادی دی تھی اور نام عائشہ تھا۔خدمتِ خلق کے لیے وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور یہ اسکا خواب تھا۔ابھی وہ بارھویں جماعت کی طالبہ تھی اور تقریری مقابلوں میں اپنے ڈویژن کی پرنسپل بھی۔لوگوں میں ولولہ،جوش اور امید کی لہر دوڑانے والی یہ شہزادی ایک دن حادثے کا شکار ہو گئی۔

کچھ سال پہلے جب اسے تقریری مقابلے کی تیاری کے لیے جلدی کالج جانا تھا،امی ناشتے کے لیے کب سے کچن میں بلا رہے تھے وہ کچن گئی تو ماں اپنی چندا کو پیار سے دیکھنے لگی لمبی عمر کامیابی کی دعا دیتے وہ اپنی بیٹی کی موہنی سی صورت دیکھنے میں مگن تھی کہ اچانک گیس سلنڈر پھٹنے سے سارے کچن میں آگ لگ گئی۔بابا بھائی بچانے کو بھاگے تو۔عائشہ بے حوش ہو چکی تھی اور بدقسمتی سے پوری طرح جل چکی تھی۔

عائشہ نے جب آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو تڑپ گئی اسے لگا اسکی جلد موم کی طرح پگل رہی ہے یا کوئی اسکی کھال اتار رہا ہے اس پل اسنے موت کو بہت قریب سے محسوس کیا اور فلسفے بیان کرنے والی یہ گڑیا آج ہار گئی تھی،اس نے آہ بھری کہ جی لوں گی۔زندگی موت کا دوسرا نام اسے تب لگی جب اسے پتہ چلا کہ اسکی امی بہت زیادہ متاثر ہو گئی ہیں اور اپنا دکھ بھول کہ وہ ماں کی تکلیف کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرنے لگی۔ اس سب وقت میں اس نے کئی بار ماں بابا کا پوچھا جواب یہی ملا کہ اُنکو گھر لے جایا گیا ہے آپ جلدی ٹھیک ہوں پھر مل لینا۔دو مہینوں بعد جب گھر جانے کا سنا خوشی سے ساری تکلیف بھول گئی۔جب گھر جا کے ماں کو نہ پایا تو وہ پریشانی سے چیخنے لگی پھر بتایا کہ انکو ابھی کچھ مہینے ہسپتال رہنا ہے، صبر تب ٹوٹا جب باربار بابا کو بلانے لگی اور کسی نے یہ کہہ کر اس پہ قیامت توڑ دی کہ وہ تو اُسی دن انکو چھوڑ کے رب تعالیٰ سے جا ملے تھے، اب اسکے زخم کُھلنے لگے دماغ جیسے سن ہو گیا ہو اب کی بار اسے لگا کے زندگی بہت بے رحم ہے اور اسکے لیے تو موت بہتر تھی روتے روتے صبر آ ہی گیا ماں بھی گھر آ گئ۔دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کی تکلیف ایک دوسرے میں محسوس کر سکتیں تھیں اور شاید ایک دوسرے کے لیے زندہ تھیں۔بھائیوں کی یہ کلی مرجھا گئی تھی اگلے ہفتے پیپر تھے اس سے ذکر کیا تو اسنے صاف انکار کر دیا کہ اب وہ دنیا کا سامنا نہیں کر سکتی اور کسی صورت کسی خواب کو اپنی آنکھوں میں نہیں سما سکتی سب کے سمجھانے پہ بھی وہ نہ سمجھی۔یہ بلبل اب خواب نگر کا باغ چھوڑ چکی تھی۔سال گزرا اور ایک رات سانس رکنے کی وجہ سے اسکی ماں بھی چل بسی۔یہ وقت اس پہ قیامت کی طرح تھا یا اس سے بھی تکلیف دہ۔اس نے اللہ سے باربار موت مانگی لیکن حقیقت میں ہم موت کے نہیں زندگی کے محتاج ہوتے ہیں اور زندگی موت پہ صرف اللہ کا اختیار ہے ہم چاہ کر بھی اپنی سانس نہیں روک سکتے ہمیں ہر حال میں بس جینا ہوتا ہے۔اب وہ اپنی ماں جیسی خالہ کے انتظار میں تھی جس کے گلے لگ کے وہ جی بھر کے رو سکے اور انکے بیٹے کے ساتھ عائشہ کی منگنی بھی ہوئی تھی۔سعودیہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ وفات پہ نہ آئے اب جب آئے تو پھر کبھی نہ آئے، ایک بار عائشہ کی طرف دیکھا دوبارہ نہ دیکھا اور ان کہے الفاظ کبھی پلٹ کے نہ آنے کا کہہ گئے۔اسے لگا اچھا ہوا ماں نے یہ منظر نہیں دیکھا بیٹی کو دھتکارتا کیسے دیکھ پاتی بے موت مر جاتی!

پھر عائشہ نے اس دنیا کی بےحسی کا جواب دینے کا سوچ لیا اسنے فیصلہ کیا وہ آگے پڑھے گی ڈاکٹر بن کے اپنے ماں باپ کا خواب پورا کرے گی۔اب اس بے مقصد زندگی کو مقصد دے گی، اور کچھ سال بعد اپنی ان تھک محنت سے اسنے اپنا مقصد حاصل بھی کر لیا۔پھر اسنے غریبوں کے لیے مفت علاج کی سہولیات فراہم کی اور ساتھ اپنا ادارہ بنایا جہاں اپنے جیسی بےبس لیکن خوابوں سے پرنور آنکھوں کے خواب پورے کرتی۔اسے لگا اسکی زندگی کا حق ادا ہو گیا شاید پہلے وہ کمزور پڑھ جاتی خواب ادھورا رہ جاتا آج اسنے اپنی امید سے زیادہ پا لیا ہے۔کئی بار اسے سرجری کا کہا گیا لیکن اب اپنے اس چہرے سے اسے پیار ہو گیا تھا اور وہ رب کی رضا میں راضی تھی اسے لگتا تھا وہ اللہ کو ایسے زیادہ پیاری لگتی ہے۔۔۔۔اب وہ بہت سے لوگوں کی آواز بن چکی تھی کیونکہ اب وہ ہر دکھ سے گزر چکی تھی اور جانتی تھی کہ کون تکلیف کی کس حد پہ ہے ۔اب اسکا یقین ہے کہ اللہ کچھ بھی ادھورا نہیں چھوڑتا بہت بہترین صلہ عطا کرتا ہے، اللہ میرے خواب جانتا تھا لیکن اس تکلیف سے گزار کر اس نے مجھے سونا بنا دیا ہے. بے شک

 الله تکلیفوں، اذیتوں اور قربانیوں کے بدلے میں ایسا بہترین صلہ عطا فرماتا ہے کہ انسان ساری زندگی اس کے احسان کی شکر گزاری میں گُزار دیتا ہے۔پھر جتنی بڑی قربانی اتنا ہی بہترین صلہ۔ کیونکہ الله اپنے اوپر کوئی احسان نہیں رکھتا۔انسان کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے، اس کے پلان اور ہوتے ہیں۔وہ بھی کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اسکے ساتھ یہ حادثہ ہو اور اسکی زندگی ایسے دردناک لمحات سے گزرےلیکن یہ تو خدا کے فیصلے ہیں۔انسان کی سوچ، ارادہ اور ترکیب کچھ اور کہتی ہے۔ کبھی کبھار زندگی اندھیروں میں لے جاتی ہیں جہاں سانسیں بھی تنگ ہو جائیں لیکن آپ نے ہار نہیں ماننی اس رب پہ توکل رکھنا ہے اچھے وقت کا انتظار کرنا ہے جیسے بیج کو ایک پودا کھڑا کرنے کے لیے پہلے اندھیری وادیوں میں گمنام ہونا پڑھتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنا مقصد پا لیتا ہے زمین کا سینا چیر کر نایاب گلزار کی صورت میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے آپکو بھی یہ قید کاٹنا پڑھتی ہے لیکن ہمت اور یقین کا دامن نہیں چھوڑنا ایک روشن صبح آپ کی منتظر ہے۔

*مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے*

*کہ  دانہ خاک  میں مل کر  گُلِ گُلزار  بنتا ہے*

No comments