تلخیاں زندگی کی بقلم عاشؔی کھوکھر سیالکوٹ
بقلم۔عاشؔی کھوکھر سیالکوٹ
دکھنے میں ہشاش بشاس انسان اندر سے اتنادکھی اور ٹوٹا ہوا ہوتا ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ انسان سچ میں اتنا خوش ہے؟کیا اسے کبھی کوئی دکھ یا غم نہیں ملا۔واقعی خوش ہے یا خوش رہنے کی اداکاری کر رہا ہےکبھی کبھی ہم کسی کو بہت خوش دیکھ کر یہ غلط اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کتنا خوش قسمت ہے یہ ہنستا ہوا انسان جسے کبھی دکھ نہیں ملا مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ناجانے وہ زندگی کی کتنی تلخیاں سہہ سہہ کے وہ خود کو اسقدر مضبوط بناپایاہے کبھی ان کے پاس بیٹھ کے انکے دل کی سنیں وہ اپنے اندر درد دکھو کا سمندر رکھتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہتے اس درد کے سمندر کو خاموش کروا چکے ہوتے ہیں اب انہیں چھوٹے چھوٹے دکھ دکھ نہیں لگتے اب انہیں حالات پریشان نہیں کرتے معمولی تکلیفیں اب انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اب ان کے حوصلے پست کرنے کی طاقت کسی میں بھی نہیں ۔زندگی تجربات تو دیتی ہے مگر وقت سے پہلے بڑا کر دیتی ہے سمجھدار بنا دیتی ہے معصومیت چھین لیتی ہے زندگی بہت بے رحم ہے شاگردی کی عمر میں استاد بن جانا کوئی معمولی بات نہیں جنہوں نے زندگیوں کی تلخیوں کو ہر ہر گھونٹ پیا ہو انہیں روز مرہ کی پریشانیاں پریشان نہیں کرتی اک وقت تک انسان اپنی تکالیف دردوں کا واویلا کرتا ہے مگر آہستہ آہستہ ان کے ساتھ جینا سیکھ جاتا ہے پھر اسے ان کے سنگ جینے میں مزہ آتا ہے۔ انبیاء کرام نے بھی دنیاوی زندگی میں اس کی تکالیفیں اور اس بے فیض دنیا کا رویہ سہا ہےاس دنیا نے انبیاء کرام کا لحاظ نہیں رکھا تو ہم ناچیز کیا ہیں؟یہ تو وہ دنیا ہے جس نے رحمت العالمین کو بھی پتھر مارےگندی اوجھڑی حالتِ نماز میں آپکی مبارک پشت پہ ڈالی جاتی آپ ﷺ پہ کوُڑا پھینکا جاتا راستے میں کانٹے بچھاۓ جاتے۔نعوذ باللہ قتل کی سازشیں تیار کی گئیں تین سال شعب ابی طالب میں محصور رکھا مگر کبھی بھی آپﷺکے لب مبارک پہ حرفِ بددعا تک نہ آیا سب کچھ برداشت کیا ہر تکلیف کوسہا صرف اور صرف اپنی امت کی خاطر۔کیونکہ اپنی جان کے لیے تو کوئی بھی برداشت کر لے مگر اصل برداشت وہ جو آپ کسی اور کی خاطر کریں۔ جو جس ظرف کا مالک ہوتا اگلے کو بھی وہی دیتا ہے کم ظرف ہمیشہ آپکی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنے گا جبکہ اعلٰی ظرف آپکی تکلیفوں کو دور کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کریگا
ظرف ظرف کے بات ہوتی ہے صاحب
کوئی کہہ جاتا ہے کوئی سہہ جاتا ہے
کہنے والے تو کہہ جاتے ہیں سہنے والے کمال کرتے ہیں سب کچھ سُن کے برداشت کرکے اپنا معاملہ بارگاہِ خدا وندی میں پیش کر دیتے ہیں"اے مالک ارض و سماں تُو جان تیرا کام جانے" جو زندگی کی تلخیون کو سہتے ہیں دنیا اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہے مٹی کا برتن آگ میں تپایا جاتا ہے سونے کو آگ کی بھٹی میں پگھلایا جات ہے لوہے کو آگ میں ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ جاذب اور خوبصورت نظر آئیں اور انکی قیمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جو انسان بھی زندگی کی بھٹی میں جلتا ہے خدا کی بارگاہ میں اسکا مقام ومرتبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے
No comments