Dill ki Daldal column written by Famous writer Swaira Arif Mughal

 موضوع : "دل کی دلدل"

نام : سویرا عارف مغل


ملی جس کو بے رونقیاں ، دل کی اداسیاں ، دکھوں کی گہرائیاں

 درد کے توازن ہوں جس کے ہوش و حواس کے متوازن ،لہجوں سے سمٹی ،تلخیوں میں لپٹی ،ایک اداس روح کی مانندپ

ریوں سی دکھتی انتہائی نادان لڑکی، بے خبر خیالوں میں الجھی ، سوچوں کی الجھی ، زخموں کی عادی 

بےکار شہزادی ،کہ جس کا دل اب نا خوشی میں کھلکھلاتا ہے پاتا نا غمی میں سوگ مناتا ہے  ۔

تنہائیوں سے باندھی ہوئی وہ ایک زرد پتے کی مانند بے باک لڑکی کہ جس کو نا کل تمنا نا ماضی کے عذاب کی پرواہ ۔

اور اس کا مسکرانا تو یوں ہے جیسے آندھی میں پھولوں کا بہار سے شوخ و چنچل ہوکر ضد منانا ۔

خیر و شر میں نا جس کا شمار اور نا جس کا کوئی دلدار  ہاں اس کی دل کی دلدل یہ ہے اس کے دل کی دلدل ابھی دلدل کی صف اول کی تہہ کا زکر ہوا 

ابھی دل کی آخری تہہ تک جانا ہی ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ وہاں اس نے اپنی خواہشات مار لی اس نے دل کے اس کونے میں قبروں کے مزار بنا رکھے ۔

جہاں آب وتاب تھی پھولوں کی پر وہ مہک مثل ماتم ہے ۔

وہاں کوئی گونج نہیں سنائی دے سکتی وہاں نا رنج ہے نا کوئی مزہ ہے۔

ادھر کوئی لذت سے وہ آگے کا جہاں ہے ۔

اس کے دل کی دلدل وہ نا جانے زندگی سے کتنی دور وہاں جاکر بیٹھ جاتی ہے اکثر وہاں اسے پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ، کوئی مجھے سن رہا ۔

میری ہسنی کی پکار نا تو وہاں کسی نے سنی اور نا ہی میرے رنج سنے ۔

وہ خانہ دل بہت عظیم جہاں ہے ۔

وہ میرے دل کی دلدل میں ایک عمدہ سا جہاں ہے ۔

ہاں وہ اس کے دل میں ہی کہیں ہے موجود ۔

ہاں وہ خانہ بہت سکون دے ہے۔

زمانے کی الجھنیں ، زخموں کی آگ جب بڑھ جائے ۔

اذیتیں نا گنی جائیں ۔

بےشمار دکھوں کے محاصرے ہوجائیں ۔

تو وہاں کوئی آرام سے بیٹھ کر رو لیا کرتا ہے ہاں وہ وہ نہیں ہوتی وہ ممکن ہے اس کی روح کی تسکین ہوتی ہے ۔ وہ جہاں تو ایسا ہے جہاں اگر بیٹھ کر ماتم بھی منایا جائے تو آواز پست ہی ہوگی وہاں الجھنیں غارت ہوں گی ! 

ہاں ممکن ہے وہاں خوشی جیسا بھی کوئی احساس نا ہو ۔

وہ لذتوں سے کوئی آگے کا جہاں ہو ممکن ہے وہاں کوئی نا ہو۔

بس اندھیرا ہو اور سناٹا ہر سو پھیلا ہوا ہو۔

خاموشی قہقہوں میں گنگناتی ہوئی دکھے۔

وہاں انتظار ہو انتظار ہو اور با انتظار ہو۔

ہاں وہ وہاں ہی سکون پاتی ہے بس ۔

وہ وہی اپنی زندگی مناتی ہے بس۔

وہاں اس کا اختیار بھی چلتا ہے۔

وہاں اسے کوئی اپنا گلا گھونٹنے کو نہیں کہتا۔

وہاں اس کی آواز کو کوئی نہیں دباتا۔

ادھر وہ چینخ چینخ کر آنسو بھی بہا لیتی ہے۔

ہاں ہے ایسا ہی کوئی جہاں  جو اس کی دل کی دلدل کہلاتی ہے وہ ایسی کھائی ہے جو اس کے ذہن کو بوڑھا کر رہی ہے لیکن وہ اس کی ہر چوٹ کو زخم بناکر آہستہ آہستہ مٹا بھی رہی ہے ۔

ہاں وہ وہاں ہی بس سکون پاتی ہے۔

وہاں نا کوئی اس سے سوال کرتا ہے

اور نا وہ کسی کو جواب دیتی ہے۔

وہاں لمحے سالوں میں گزرتے ہیں۔

وہاں باب مہینوں میں بدلتے ہیں۔

No comments