Dosti ka haq afsancha written by Zareen Zahid
دوستی کا حق
از قلم: زرین زاہد
ایک شخص کا بیٹا روز رات کو دیر سے آتا ہے اور جب بھی اس سے اس کا والدپوچھتا ہےکہ بیٹا کہاں تھے ؟
تو جھٹ سے کہتا ہے کہ دوست کے ساتھ تھا ۔ایک دن بیٹا جب بہت زیادہ دیر سے گھرآیا تو باپ نے کہا کہ بیٹا آج میں آپ کےدوست سے ملنا چاہتا ہوں ۔
بیٹے نے کہا کے اباجی اس وقت؟
ابھی رات کے دو بجے ہیں کل چلتے ہیں ۔
نہیں ابھی چلتے ہیں ۔
تمہارےدوست کا تو پتہ چلے،
باپ نے یہ زور دیتے ہوئے کہا !
جب اس کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر
تک کوئی جواب نہ آیا ۔
بلاآخر دروازہ کھولااودایک بزرگ نے جو اس کے دوست کا باپ تھا آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکے نے کہا !!
اپنے دوست سے ملنے آیا ہوں ۔
اس وقت!!مگر وہ تو سو رہا ہے۔ بزرگ نے جواب دیا ۔
چاچا آپ اس کو جگائے مُجھے اس سے ضروری کام ہے ،مگر بہت دیر گزرنے کے بعد بھی یہی جواب آیا کہ صبح آجانا ابھی سونے دو ۔
اب تو عزت کا معاملہ تھا تو اس نے اہم کام کا حوالہ دیا مگر پھر بھی دوست سے نا مل سکا۔
باپ نےبیٹے سے کہا کہ اب چلو میرے ایک دوست کے پاس چلتے ہیں جس کا نام سفیع اللّٰہ ہے ۔
سفر کرتے کرتے اذان کے وقت سے ذرا پہلے وہ اس گاؤں پہنچے اور سفیع اللّٰہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا،
مگر کوئی جواب نہ آیا، بالآخر اس نے زور سے اپنا نام بتایا کہ میں احمد رضا خاں ہوں ۔
مگر پھر بھی دروازہ ساکت اور کوئی حرکت نہیں ۔
اب بیٹے کے چہرے پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ آگئی ۔
لیکن اسی لمحے لاٹھی کی ٹھک ٹھک سنائی دی اور
دروازے کی زنجیر اور کنڈی کھولنے کی آواز آئی۔
ایک بوڑھا شخص برآمد ہوا جس نے لپیٹ کر اپنے دوست کو گلے لگایا اور بولا کہ میرے دوست بہت معذرت !!
مُجھے دیر اس لیے ہوئی کہ جب تم نے تئیس سال بعد میرا دروازہ رات گئے کھٹکھٹایا تو مُجھے لگا کہ کسی مصیبت میں ہو اس لئے جمع پونجی نکالنے لگا کہ شاید پیسوں کی ضرورت ہے ۔
پھر بیٹے کو اٹھایا شاید بندے کی ضرورت ہے ۔
پھر سوچا شاید فیصلے کے لیے پگ کی ضرورت ہو تو اسے بھی لایا ہوں ۔
اب سب کچھ تمہارےسامنے ہے۔
پہلے بتاؤ کس چیز کی ضرورت ہے؟
یہ سن کر بیٹے کی آنکھوں سے آنسو آگئے۔
کہ اباجی کتنا سمجھاتے تھے کہ بیٹا دوست وہ نہیں ہوتا جو رات دیر تک ساتھ ہو بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو ایک آواز پر دوستی کا حق نبھانے آجائے ۔
آج بھی کئی لوگ ایسی وقت گزاری دوستیوں پہ اپنے والدین کو ناراض کرتے ہیں ۔اور اپنے والدین کے سامنے اکڑ جاتے ہیں۔
No comments