Islah column written by Qandeel Asad

اصلاح

قندیل اسد(چشتیاں شریف) 


زاویار منہ توڑ دوں گی میں تمہارا، ہر وقت تمہارا ذہن شیطانی خیالات میں الجھا رہتا ہے ۔شرارت پر شرارت، ذلیل کر رکھا ہے تم نے۔تمہیں اللہ سے ڈر کیوں نہیں لگتا۔جہنم کی آگ میں ڈال دینا ہے اللہ نے تمہیں، فردوس نے زاویار کو ہمسائیوں کی چھت پر چڑھ کر امرود توڑتے دیکھ کر کہا ۔جس پر زاویار نے ایک نظر ماں کی طرف دیکھا اور واپس اپنے کام میں مگن ہو گیا۔صحن میں بیٹھی مشکوٰۃ نے ناپسندیدگی سے بھابھی کو دیکھا ۔اور زاویار کو اپنے پاس بلایا، جی پھوپھو آپ نے آواز دی۔مشکوٰۃ نے زاویار کو پاس بٹھایا اور پوچھا، میں کافی دن سے دیکھ رہی ہوں ننھے شہزادے کو، کہ وہ اپنی اماں جان کو بہت ستا رہے ہیں ۔آخر کیا مسئلہ ہے زاویار ۔پھوپھو مجھے اللہ تعالٰی اچھے نہیں لگتے، زاویار کے منہ سے یہ فقرہ سن کر مشکوٰۃ دہل کر رہ گئی، خود کو سنبھالتے ہوۓ بولی، اچھے نا لگنے کی وجہ بھی تو ہو گی ۔کوئی بھی کام کرو امی کہتی ہیں اللہ ماریں گے، آگ میں پھینک دیں گے،کیا اللہ کو کوئی اور کام نہیں ہے پھوپھو،اللہ بس سزا ہی دینا جانتے ہیں کیا ۔مشکوٰۃ کو زاویار کی باتوں نے شدید حیران کیا، اور افسوس بھی ہوا اپنی بھابھی کی سوچ پر کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے حوالے سے کس انداز میں کر رہے ہیں۔ بچوں کے دلوں میں عشق الٰہی کا بیج بونے کی جگہ ہم وعید سنا سنا کر انہیں اسلام سے دور کر رہے ہیں ۔مشکوٰۃ دل میں زاویار کی رہنمائی کی لگن لیے ہمت سے گویا ہوئی، نہیں شہزادے ایسا نہیں ہے ۔ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ اپنے بندوں سے ستر ماوؤں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے والدین سے بھی زیادہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کریں ۔تم جانتے ہو زاویار، تمہاری غلطی پر تمہاری اماں جب تمہیں ڈانٹتی یا مارتی ہیں۔تو وہ تمہیں جان بوجھ کر سزا نہیں دیتی ہیں اور نا اس لیے کہ وہ تم سے پیار نہیں کرتیں بلکہ اس لیے یہ سب کرتی ہیں تاکہ تم اچھے انسان بن کر اچھے کام کرو۔اپنی غلطی سے اماں کی طرف سے ملنے والی سزا سے آئندہ کے لیے کچھ اچھا سیکھ سکو اور دوسروں کو اپنی غلطی سے سیکھا سکو۔اتنے میں فردوس بھی کچن سے نکل کر ان کے پاس آ گئیں ہاتھ میں جوس کا گلاس تھا جو زاویار کی جانب بڑھایا ۔جسے زاویار نے فوراً تھام لیا ۔مشکوٰۃ نے مسکراتے ہوۓ کہا دیکھو زاویار یہ تمہاری وہی ماں ہے جو چند لمحے پہلے تمہیں ڈانٹ رہیں تھیں جیسے کہ تم ان کی اولاد ہی نہیں  اور اب محبت سے تمہارے لیے جوس لے آئی ہیں کہ گرمی میں چھت پر کھڑے کھڑے تمہیں پیاس لگ گئی ہو گی ۔زاویار نے حیرانی سے ماں اور پھوپھو کی جانب دیکھا۔جب ایک ماں اتنا پیار کرتی ہے زاویار تو ستر ماوؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والے رب کو تم کیسے ناپسند کر سکتے ہو ۔زاویار نے اپنے ننھے سے دماغ پر زور دیا اور کہنے لگا” اوہ“ اس کا مطلب ہے کہ ہم اللہ کے بچے ہیں ۔تبھی وہ ہم اسے اتنا پیار کرتے ہیں ۔نہیں، ہم اللہ کے بچے نہیں بلکہ ہم سب اللہ کے بندے ہیں غلام ہیں ۔اللہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔آپ کو پتا ہے اللہ تعالی کا کوئی بیٹا ہے نہ امی ابو نہ بہن بھائی، وہ بہت بڑے ہیں انہیں کسی ضرورت نہیں۔ بس انسانوں جانوروں کے امی ابو اور بچے ہوتے ہیں اللہ کے نہیں ہوتے۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ 

"اللہ کتنے بڑے ہیں"

"ساری دنیا سے بڑے ہیں"

زاویار کی آنکھوں میں مزید حیرت در آئی۔

"اسی وجہ سے وہ ہمیں دیکھ لیتے ہیں نا" 

"جی ہاں"

"تو اللہ تعالی کو ہم سب نظر آ رہے ہیں "

"ہاں جی "

"گھروں کے اندر بھی"

"جی ہاں وہ سب دیکھ سکتے ہیں"

پھوپھو اللہ ہمیں اوپر کیسے لے کے جائیں گے کوئی اڑنے والا قالین ہوگا" 

"وہ حکم دیں گے تو سب دوڑتے ہوئے ایک میدان میں چلے جائیں گے وہاں اللہ تعالی آئیں گے پھر برے لوگ آگ میں اور اچھے جنت میں جائیں گے"

"برے لوگ کون ہوتے ہیں"

"جو اللہ کی بات نہیں مانتے" 

"جنت میں ہمیں سب کچھ ملے گا نا"

"جی بالکل، ڈھیر ساری چیزیں "

"میں جنت میں اللہ تعالٰی کے پاس موبائل بھی یوز کر سکوں گا"

"بالکل کر سکیں گے اللہ تعالی کچھ بھی نہیں کہیں گے، نہ ماما نہ بابا نہ کوئی اور روکے گا بس جو اچھے کام کرے گا اسے وہاں سب ملے گا"

زاویار کی آنکھوں میں خوشی کے ساتھ حیرت مزید جگمگانے لگی۔ 

”اللہ سب کو سزا دیتے ہیں“

”نہیں صرف برے لوگوں کو، جو اللہ کے بار بار بلانے پر بھی حاضر نہیں ہوتے، لیکن اگر وہ توبہ کر لیں تو اللہ ان کو معاف کر کے انعام سے نوازتا ہے۔

آپ کو رونا آ رہا ہے زاویار، مشکوٰۃ نے زاویار کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھا 

اور اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھام لیا۔

"پھوپھو آپ اللہ تعالی سے کہیں،وہ مجھے معاف کر دیں، مجھے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اچھے لگتے ہیں“

"ابھی کہہ دوں "

جی پلیز، مشکوٰۃ نے ہاتھ اٹھا کر زاویار کے لیے ہدایت کی دعا مانگی 

جس پر زاویار نے آمین کہہ کر منہ پر ہاتھ پھیرے اور عزم سے کہنے لگا اب سے میں  اچھے کام کروں گا، مسجد اللہ تعالی کا گھر ہوتا ہے، وہاں بھی جاؤں گا۔ہر وہ کام کروں گا جس سے اللہ راضی ہوں گے ۔ساتھ ہی نظر ماں کی جانب کی ،اور کہنے لگا  امی جان آپ بھی مجھے معاف کر دیں، اب سے میں آپ کی بھی ہر بات مانوں گا ۔یہ منظر دیکھ کر فردوس کی آنکھیں بھیگ گئیں، زاویار کو سینے سے لگاتے ہوۓ تشکر آمیز نگاہوں سے نند کی جانب دیکھا کہ اس نے فردوس کی عقل پر پڑا پردہ لمحوں میں ہٹا کر ثابت کر دیا تھا کہ ہم جو بیج بوئیں گے وہی کاٹیں گے ۔اللہ پاک ہم سب کو احسن طریقے سے اپنی نئی نسل کی تربیت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین)

No comments